محمداشفاق راجا
ارض پاکستان اس وقت ان گنت مشکلات سے دوچار ہے۔ ہمارے اندرونی اور بیرونی خطرات کتنی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں ؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ملک کے بیشتر اہم صحافی اور مقتدر دانشور حضرات اس حوالے سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں قوم کو درپیش خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ان سے نمٹنے کے لئے ممکنہ مشورے بھی دے رہے ہیں۔ اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ان غلطیوں پر بھی غور کیا جائے جن کے باعث نوبت یہاں تک پہنچی۔ اس وقت ایک بات بالکل سامنے کی ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد سْپر پاور بن کر سامنے آ چکا ہے۔ جب تک سوویت یونین روس قائم تھا اْس وقت تک امریکہ کو کبھی اس کی جرآت نہیں ہوئی تھی کہ کسی ملک پر اس طرح چڑھ دوڑے جیسے وہ عراق، افغانستان اور لیبیا پر چڑھ دوڑا ہے۔ اور بات یہیں پر ختم نہیں ہو رہی۔ کبھی تین، کبھی سات اور کبھی ستّر ممالک کی سرکوبی کی باتیں بھی سرِ عام کی گئی ہیں اور ایٹمی حملے کی دھمکیاں بھی سنا دی گئی ہیں۔ اور تا حال چین اور روس کی طرف سے دبی دبی سی اور معذرت خواہانہ مذمت کے باوجود امریکہ کو چیلنج کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکی افواج عرب ممالک میں براجمان ہیں۔ بلکہ عرب ممالک میں تو ان امریکی افواج کا سارا خرچہ بھی عربوں کے سر پر ہے۔
میں سمجھتا ہوں اگر امریکہ ایسا کر رہا ہے تو اْس کے اپنے قومی مفاد میں یہ اْس کا حق ہے۔ اگر ہم دنیا کی واحد سپر پاور ہوتے تو شاید ہم بھی ایسا ہی کرتے۔ اس لئے مسئلہ امریکہ کی مذمت کا نہیں بلکہ اپنی اْن غلطیوں کی طرف توجہ کرنے کا ہے جن کے باعث ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑا۔
گزشتہ پچاس سال کی پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔۔ ہماری بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے امریکہ کے مقابلہ میں سوویت یونین روس کونہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اسے اپنا شدید سیاسی اور سیاسی سے زیادہ دینی حریف گردانا۔ کیمونسٹ روس کو خدا کا منکر اور دہریہ قرار دے کر اس کے خلاف عوام میں نفرت کی فضا پیدا کی گئی۔ روس کے بارے میں معتدل یا دوستانہ رویہ رکھنے والے سیاستدانوں کو ملک دشمن اور غدار کہا جاتا رہا۔ ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری کئے جاتے رہے۔ روس دشمنی کے لئے تقریباً تمام دینی جماعتیں حسبِ توفیق کام کرتی رہیں۔ جس سے عوام میں روس کے خلاف نفرت بڑھتی رہی۔ اس سے سیاسی طور پر امریکی گرفت پاکستان پر مسلسل مضبوط ہوتی رہی۔
پھر اس وقت یہ نفرت انتہا کو پہنچ گئی جب سوویت یونین نے ایک بڑی سیاسی غلطی کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ امریکہ نے تب روس کے خلاف اس نفرت کو بھرپور طریقے سے کیش کرایا۔ ایک طرف پاکستان کو جہاد افغانستان کے نام پر متحرک کیا گیا۔ دوسری طرف بیشتر عرب ممالک سے بھی مجاہدین منگائے گئے۔ افغان عوام کو روس کے خلاف بھڑکایا گیا۔ تب سارا عالَمِ اسلام سوویت یونین کے کیمونزم کی دشمنی میں جہاد افغانستان کے نام پر امریکی مفادات کے لئے آلہ کار بن کر رہ گیا۔ اْس وقت اگر خان عبدالولی خان جیسے چند سیاسی رہنماؤں نے ایسے بیان دئیے کہ افغانستان میں کوئی جہاد نہیں ہو رہا ہے بلکہ امریکی مفادات کا کھیل چل رہا ہے۔۔ امریکہ جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہا ہے اور صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ تب ایسی ساری باتوں کے جواب میں خان عبدالولی خان کو اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو حسبِ معمول غدار اور اسلام دشمن اور ملک دشمن کہہ کر چْپ کرا دیا گیا۔ شدید پروپیگنڈہ کر کے روسی افواج کے افغانستان میں داخلے کے بارے میں یہ باور کرایا جاتا رہا کہ افغانستان کے بعد پاکستان ہی روس کا نشانہ بنے گا۔
جنرل ضیا ء الحق کو اسی بہانے ملک سے جمہوریت کا جنازہ نکالنے اور اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا موقعہ مل گیا۔ ہم جمہوری روایات سے بے بہرہ ہوتے چلے گئے اور پھر نجی مفادات کی ایک دوڑ چل نکلی جس کے نتیجہ میں غریب، غریب تر ہوتا گیا اور امیر امیر تر۔۔۔۔۔ جس’’ اسلام‘‘ کو کیمونسٹ روس سے شدید خطرہ تھا اس’’اسلام‘‘کو ان سماجی ناانصافیوں اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج سے کوئی خطرہ نہں ر محسوس ہو رہا تھا، حالانکہ دینِ اسلام توسب سے پہلے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا فلاحی نظام پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک طرف جنرل ضیاء الحق جیسے فوجی کا ذاتی اقتدار مستحکم ہو رہا تھا، دوسری طرف عرب ممالک کے شیوخ اور شاہ اپنی شاہانہ رونقوں میں مگن تھے اور امریکہ نے ان سب کی دفاعی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں۔ ان سب کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا تھا۔
ایسے حالات میں سوویت یونین روس ٹوٹ گیا۔ امریکہ نے ایک ایسی جنگ جیت لی جس کا اس نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ جنگ امریکہ نے افغانیوں، پاکستانیوں اور عالَمِ اسلام کی بھرپور مدد سے بلکہ ان کی قربانیوں کی بدولت جیتی تھی۔ اور پاکستان کو اس کا صلہ یہی ملا کہ ملک کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کی لپیٹ میں آگیا۔ امریکی مفادات کے تحفظ کے نتیجہ میں ملک کے اندر پیدا ہونے والے اسی کلچر کو اب خود امریکہ ’’دہشت گردی‘‘ قرار دے کر ہمیں موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ سوجب امریکہ کو سوویت یونین کا کوئی خوف نہ رہا تو پھر افغانیوں اورپاکستانیوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ناروا سلوک کیا جو عام طور پر ’’ٹشّوپیپر‘‘سے کیا جاتا ہے۔ اور اب امریکہ پاکستان، افغانستان اور سارے عالَمِ اسلام کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ تو ایک نئی تاریخ بن رہی ہے۔ وہ تاریخ جسے پہلے ہی امریکی دانشور ’’تاریخ کے خاتمے‘‘سے تعبیر کر چکے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اب مسئلہ امریکہ کو برا بھلا کہنے سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکی قوم کی اپنی ترجیحات ہیں، اپنے مفادات ہیں۔ ہمیں پہلے تو یہ مان لینا چاہئے کہ بے شک روس کے افغانستان میں داخلے نے پاکستان کے لئے عدم سلامتی کے خدشات کو جنم دیااس کے باوجود اگر افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے لڑی جانے والی جنگ کو بے جا طور پر جہاد کا رنگ نہ دیا جاتا، تو تب کم از کم اتنے بْرے حالات تو نہ ہوتے۔ اس وقت دیکھا جائے تو پاکستان، افغانستان اور سارا عالَمِ عرب ایک طرح سے امریکہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس اجتماعی غلطی میں روس خود بھی تباہ ہو گیا مگر ہمارے لئے اہم تو اپنی بربادی کے محرکات پر توجہ دینا ہے . قوموں کو اپنے ایک لمحے میں کئے ہوئے کسی غلط فیصلے کی قیمت بعض اوقات صدیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم نے تو پوری آدھی صدی، اپنے ملک کی پوری تاریخ میں اپنے ملکی مفادات کے حوالے سے اور بالخصوص امریکہ کے حوالے سے اتنے غلط فیصلے کئے ہیں کہ ان کا خمیازہ اب کم از کم اگلی نصف صدی تک تو بہر حال بھگتنا ہو گا۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم اب موجودہ امریکی شکنجے میں رہتے ہوئے اپنے وہ احوال درست کرسکیں جن کی طرف ہم پہلے توجہ نہیں دے سکے۔
ارض پاکستان اس وقت ان گنت مشکلات سے دوچار ہے۔ ہمارے اندرونی اور بیرونی خطرات کتنی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں ؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ملک کے بیشتر اہم صحافی اور مقتدر دانشور حضرات اس حوالے سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں قوم کو درپیش خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ان سے نمٹنے کے لئے ممکنہ مشورے بھی دے رہے ہیں۔ اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ان غلطیوں پر بھی غور کیا جائے جن کے باعث نوبت یہاں تک پہنچی۔ اس وقت ایک بات بالکل سامنے کی ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد سْپر پاور بن کر سامنے آ چکا ہے۔ جب تک سوویت یونین روس قائم تھا اْس وقت تک امریکہ کو کبھی اس کی جرآت نہیں ہوئی تھی کہ کسی ملک پر اس طرح چڑھ دوڑے جیسے وہ عراق، افغانستان اور لیبیا پر چڑھ دوڑا ہے۔ اور بات یہیں پر ختم نہیں ہو رہی۔ کبھی تین، کبھی سات اور کبھی ستّر ممالک کی سرکوبی کی باتیں بھی سرِ عام کی گئی ہیں اور ایٹمی حملے کی دھمکیاں بھی سنا دی گئی ہیں۔ اور تا حال چین اور روس کی طرف سے دبی دبی سی اور معذرت خواہانہ مذمت کے باوجود امریکہ کو چیلنج کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکی افواج عرب ممالک میں براجمان ہیں۔ بلکہ عرب ممالک میں تو ان امریکی افواج کا سارا خرچہ بھی عربوں کے سر پر ہے۔
میں سمجھتا ہوں اگر امریکہ ایسا کر رہا ہے تو اْس کے اپنے قومی مفاد میں یہ اْس کا حق ہے۔ اگر ہم دنیا کی واحد سپر پاور ہوتے تو شاید ہم بھی ایسا ہی کرتے۔ اس لئے مسئلہ امریکہ کی مذمت کا نہیں بلکہ اپنی اْن غلطیوں کی طرف توجہ کرنے کا ہے جن کے باعث ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑا۔
گزشتہ پچاس سال کی پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔۔ ہماری بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے امریکہ کے مقابلہ میں سوویت یونین روس کونہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اسے اپنا شدید سیاسی اور سیاسی سے زیادہ دینی حریف گردانا۔ کیمونسٹ روس کو خدا کا منکر اور دہریہ قرار دے کر اس کے خلاف عوام میں نفرت کی فضا پیدا کی گئی۔ روس کے بارے میں معتدل یا دوستانہ رویہ رکھنے والے سیاستدانوں کو ملک دشمن اور غدار کہا جاتا رہا۔ ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری کئے جاتے رہے۔ روس دشمنی کے لئے تقریباً تمام دینی جماعتیں حسبِ توفیق کام کرتی رہیں۔ جس سے عوام میں روس کے خلاف نفرت بڑھتی رہی۔ اس سے سیاسی طور پر امریکی گرفت پاکستان پر مسلسل مضبوط ہوتی رہی۔
پھر اس وقت یہ نفرت انتہا کو پہنچ گئی جب سوویت یونین نے ایک بڑی سیاسی غلطی کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ امریکہ نے تب روس کے خلاف اس نفرت کو بھرپور طریقے سے کیش کرایا۔ ایک طرف پاکستان کو جہاد افغانستان کے نام پر متحرک کیا گیا۔ دوسری طرف بیشتر عرب ممالک سے بھی مجاہدین منگائے گئے۔ افغان عوام کو روس کے خلاف بھڑکایا گیا۔ تب سارا عالَمِ اسلام سوویت یونین کے کیمونزم کی دشمنی میں جہاد افغانستان کے نام پر امریکی مفادات کے لئے آلہ کار بن کر رہ گیا۔ اْس وقت اگر خان عبدالولی خان جیسے چند سیاسی رہنماؤں نے ایسے بیان دئیے کہ افغانستان میں کوئی جہاد نہیں ہو رہا ہے بلکہ امریکی مفادات کا کھیل چل رہا ہے۔۔ امریکہ جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہا ہے اور صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ تب ایسی ساری باتوں کے جواب میں خان عبدالولی خان کو اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو حسبِ معمول غدار اور اسلام دشمن اور ملک دشمن کہہ کر چْپ کرا دیا گیا۔ شدید پروپیگنڈہ کر کے روسی افواج کے افغانستان میں داخلے کے بارے میں یہ باور کرایا جاتا رہا کہ افغانستان کے بعد پاکستان ہی روس کا نشانہ بنے گا۔
جنرل ضیا ء الحق کو اسی بہانے ملک سے جمہوریت کا جنازہ نکالنے اور اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا موقعہ مل گیا۔ ہم جمہوری روایات سے بے بہرہ ہوتے چلے گئے اور پھر نجی مفادات کی ایک دوڑ چل نکلی جس کے نتیجہ میں غریب، غریب تر ہوتا گیا اور امیر امیر تر۔۔۔۔۔ جس’’ اسلام‘‘ کو کیمونسٹ روس سے شدید خطرہ تھا اس’’اسلام‘‘کو ان سماجی ناانصافیوں اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج سے کوئی خطرہ نہں ر محسوس ہو رہا تھا، حالانکہ دینِ اسلام توسب سے پہلے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا فلاحی نظام پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک طرف جنرل ضیاء الحق جیسے فوجی کا ذاتی اقتدار مستحکم ہو رہا تھا، دوسری طرف عرب ممالک کے شیوخ اور شاہ اپنی شاہانہ رونقوں میں مگن تھے اور امریکہ نے ان سب کی دفاعی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں۔ ان سب کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا تھا۔
ایسے حالات میں سوویت یونین روس ٹوٹ گیا۔ امریکہ نے ایک ایسی جنگ جیت لی جس کا اس نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ جنگ امریکہ نے افغانیوں، پاکستانیوں اور عالَمِ اسلام کی بھرپور مدد سے بلکہ ان کی قربانیوں کی بدولت جیتی تھی۔ اور پاکستان کو اس کا صلہ یہی ملا کہ ملک کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کی لپیٹ میں آگیا۔ امریکی مفادات کے تحفظ کے نتیجہ میں ملک کے اندر پیدا ہونے والے اسی کلچر کو اب خود امریکہ ’’دہشت گردی‘‘ قرار دے کر ہمیں موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ سوجب امریکہ کو سوویت یونین کا کوئی خوف نہ رہا تو پھر افغانیوں اورپاکستانیوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ناروا سلوک کیا جو عام طور پر ’’ٹشّوپیپر‘‘سے کیا جاتا ہے۔ اور اب امریکہ پاکستان، افغانستان اور سارے عالَمِ اسلام کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ تو ایک نئی تاریخ بن رہی ہے۔ وہ تاریخ جسے پہلے ہی امریکی دانشور ’’تاریخ کے خاتمے‘‘سے تعبیر کر چکے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اب مسئلہ امریکہ کو برا بھلا کہنے سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکی قوم کی اپنی ترجیحات ہیں، اپنے مفادات ہیں۔ ہمیں پہلے تو یہ مان لینا چاہئے کہ بے شک روس کے افغانستان میں داخلے نے پاکستان کے لئے عدم سلامتی کے خدشات کو جنم دیااس کے باوجود اگر افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے لڑی جانے والی جنگ کو بے جا طور پر جہاد کا رنگ نہ دیا جاتا، تو تب کم از کم اتنے بْرے حالات تو نہ ہوتے۔ اس وقت دیکھا جائے تو پاکستان، افغانستان اور سارا عالَمِ عرب ایک طرح سے امریکہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس اجتماعی غلطی میں روس خود بھی تباہ ہو گیا مگر ہمارے لئے اہم تو اپنی بربادی کے محرکات پر توجہ دینا ہے . قوموں کو اپنے ایک لمحے میں کئے ہوئے کسی غلط فیصلے کی قیمت بعض اوقات صدیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم نے تو پوری آدھی صدی، اپنے ملک کی پوری تاریخ میں اپنے ملکی مفادات کے حوالے سے اور بالخصوص امریکہ کے حوالے سے اتنے غلط فیصلے کئے ہیں کہ ان کا خمیازہ اب کم از کم اگلی نصف صدی تک تو بہر حال بھگتنا ہو گا۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم اب موجودہ امریکی شکنجے میں رہتے ہوئے اپنے وہ احوال درست کرسکیں جن کی طرف ہم پہلے توجہ نہیں دے سکے۔
0 comments:
Post a Comment