Showing posts with label urdu articles. Show all posts
Showing posts with label urdu articles. Show all posts

Monday, December 7, 2015

Sunday, December 6, 2015

Saturday, December 5, 2015

Monday, November 30, 2015

ہماری غلطیاں

محمداشفاق راجا
ارض پاکستان اس وقت ان گنت مشکلات سے دوچار ہے۔ ہمارے اندرونی اور بیرونی خطرات کتنی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں ؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ملک کے بیشتر اہم صحافی اور مقتدر دانشور حضرات اس حوالے سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں قوم کو درپیش خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ان سے نمٹنے کے لئے ممکنہ مشورے بھی دے رہے ہیں۔ اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ان غلطیوں پر بھی غور کیا جائے جن کے باعث نوبت یہاں تک پہنچی۔ اس وقت ایک بات بالکل سامنے کی ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد سْپر پاور بن کر سامنے آ چکا ہے۔ جب تک سوویت یونین روس قائم تھا اْس وقت تک امریکہ کو کبھی اس کی جرآت نہیں ہوئی تھی کہ کسی ملک پر اس طرح چڑھ دوڑے جیسے وہ عراق، افغانستان اور لیبیا پر چڑھ دوڑا ہے۔ اور بات یہیں پر ختم نہیں ہو رہی۔ کبھی تین، کبھی سات اور کبھی ستّر ممالک کی سرکوبی کی باتیں بھی سرِ عام کی گئی ہیں اور ایٹمی حملے کی دھمکیاں بھی سنا دی گئی ہیں۔ اور تا حال چین اور روس کی طرف سے دبی دبی سی اور معذرت خواہانہ مذمت کے باوجود امریکہ کو چیلنج کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکی افواج عرب ممالک میں براجمان ہیں۔ بلکہ عرب ممالک میں تو ان امریکی افواج کا سارا خرچہ بھی عربوں کے سر پر ہے۔
میں سمجھتا ہوں اگر امریکہ ایسا کر رہا ہے تو اْس کے اپنے قومی مفاد میں یہ اْس کا حق ہے۔ اگر ہم دنیا کی واحد سپر پاور ہوتے تو شاید ہم بھی ایسا ہی کرتے۔ اس لئے مسئلہ امریکہ کی مذمت کا نہیں بلکہ اپنی اْن غلطیوں کی طرف توجہ کرنے کا ہے جن کے باعث ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑا۔
گزشتہ پچاس سال کی پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔۔ ہماری بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے امریکہ کے مقابلہ میں سوویت یونین روس کونہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اسے اپنا شدید سیاسی اور سیاسی سے زیادہ دینی حریف گردانا۔ کیمونسٹ روس کو خدا کا منکر اور دہریہ قرار دے کر اس کے خلاف عوام میں نفرت کی فضا پیدا کی گئی۔ روس کے بارے میں معتدل یا دوستانہ رویہ رکھنے والے سیاستدانوں کو ملک دشمن اور غدار کہا جاتا رہا۔ ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری کئے جاتے رہے۔ روس دشمنی کے لئے تقریباً تمام دینی جماعتیں حسبِ توفیق کام کرتی رہیں۔ جس سے عوام میں روس کے خلاف نفرت بڑھتی رہی۔ اس سے سیاسی طور پر امریکی گرفت پاکستان پر مسلسل مضبوط ہوتی رہی۔
پھر اس وقت یہ نفرت انتہا کو پہنچ گئی جب سوویت یونین نے ایک بڑی سیاسی غلطی کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ امریکہ نے تب روس کے خلاف اس نفرت کو بھرپور طریقے سے کیش کرایا۔ ایک طرف پاکستان کو جہاد افغانستان کے نام پر متحرک کیا گیا۔ دوسری طرف بیشتر عرب ممالک سے بھی مجاہدین منگائے گئے۔ افغان عوام کو روس کے خلاف بھڑکایا گیا۔ تب سارا عالَمِ اسلام سوویت یونین کے کیمونزم کی دشمنی میں جہاد افغانستان کے نام پر امریکی مفادات کے لئے آلہ کار بن کر رہ گیا۔ اْس وقت اگر خان عبدالولی خان جیسے چند سیاسی رہنماؤں نے ایسے بیان دئیے کہ افغانستان میں کوئی جہاد نہیں ہو رہا ہے بلکہ امریکی مفادات کا کھیل چل رہا ہے۔۔ امریکہ جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہا ہے اور صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ تب ایسی ساری باتوں کے جواب میں خان عبدالولی خان کو اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو حسبِ معمول غدار اور اسلام دشمن اور ملک دشمن کہہ کر چْپ کرا دیا گیا۔ شدید پروپیگنڈہ کر کے روسی افواج کے افغانستان میں داخلے کے بارے میں یہ باور کرایا جاتا رہا کہ افغانستان کے بعد پاکستان ہی روس کا نشانہ بنے گا۔
جنرل ضیا ء الحق کو اسی بہانے ملک سے جمہوریت کا جنازہ نکالنے اور اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا موقعہ مل گیا۔ ہم جمہوری روایات سے بے بہرہ ہوتے چلے گئے اور پھر نجی مفادات کی ایک دوڑ چل نکلی جس کے نتیجہ میں غریب، غریب تر ہوتا گیا اور امیر امیر تر۔۔۔۔۔ جس’’ اسلام‘‘ کو کیمونسٹ روس سے شدید خطرہ تھا اس’’اسلام‘‘کو ان سماجی ناانصافیوں اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج سے کوئی خطرہ نہں ر محسوس ہو رہا تھا، حالانکہ دینِ اسلام توسب سے پہلے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا فلاحی نظام پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک طرف جنرل ضیاء الحق جیسے فوجی کا ذاتی اقتدار مستحکم ہو رہا تھا، دوسری طرف عرب ممالک کے شیوخ اور شاہ اپنی شاہانہ رونقوں میں مگن تھے اور امریکہ نے ان سب کی دفاعی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں۔ ان سب کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا تھا۔
ایسے حالات میں سوویت یونین روس ٹوٹ گیا۔ امریکہ نے ایک ایسی جنگ جیت لی جس کا اس نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ جنگ امریکہ نے افغانیوں، پاکستانیوں اور عالَمِ اسلام کی بھرپور مدد سے بلکہ ان کی قربانیوں کی بدولت جیتی تھی۔ اور پاکستان کو اس کا صلہ یہی ملا کہ ملک کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کی لپیٹ میں آگیا۔ امریکی مفادات کے تحفظ کے نتیجہ میں ملک کے اندر پیدا ہونے والے اسی کلچر کو اب خود امریکہ ’’دہشت گردی‘‘ قرار دے کر ہمیں موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ سوجب امریکہ کو سوویت یونین کا کوئی خوف نہ رہا تو پھر افغانیوں اورپاکستانیوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ناروا سلوک کیا جو عام طور پر ’’ٹشّوپیپر‘‘سے کیا جاتا ہے۔ اور اب امریکہ پاکستان، افغانستان اور سارے عالَمِ اسلام کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ تو ایک نئی تاریخ بن رہی ہے۔ وہ تاریخ جسے پہلے ہی امریکی دانشور ’’تاریخ کے خاتمے‘‘سے تعبیر کر چکے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اب مسئلہ امریکہ کو برا بھلا کہنے سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکی قوم کی اپنی ترجیحات ہیں، اپنے مفادات ہیں۔ ہمیں پہلے تو یہ مان لینا چاہئے کہ بے شک روس کے افغانستان میں داخلے نے پاکستان کے لئے عدم سلامتی کے خدشات کو جنم دیااس کے باوجود اگر افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے لڑی جانے والی جنگ کو بے جا طور پر جہاد کا رنگ نہ دیا جاتا، تو تب کم از کم اتنے بْرے حالات تو نہ ہوتے۔ اس وقت دیکھا جائے تو پاکستان، افغانستان اور سارا عالَمِ عرب ایک طرح سے امریکہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس اجتماعی غلطی میں روس خود بھی تباہ ہو گیا مگر ہمارے لئے اہم تو اپنی بربادی کے محرکات پر توجہ دینا ہے . قوموں کو اپنے ایک لمحے میں کئے ہوئے کسی غلط فیصلے کی قیمت بعض اوقات صدیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم نے تو پوری آدھی صدی، اپنے ملک کی پوری تاریخ میں اپنے ملکی مفادات کے حوالے سے اور بالخصوص امریکہ کے حوالے سے اتنے غلط فیصلے کئے ہیں کہ ان کا خمیازہ اب کم از کم اگلی نصف صدی تک تو بہر حال بھگتنا ہو گا۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم اب موجودہ امریکی شکنجے میں رہتے ہوئے اپنے وہ احوال درست کرسکیں جن کی طرف ہم پہلے توجہ نہیں دے سکے۔
 

روشنی کے مینار

کالم : بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956
روز اول سے اِس دھرتی پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان وارد ہوتا رہا ہے ‘زیادہ تر کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنا اور مٹی کا ڈھیر بن کر مٹی کا حصہ ہو گیا لیکن کروڑوں انسانوں کی اِس بھیڑ میں ہر دور اور ہر خطے میں چند لوگ ایسے بھی طلوع ہوئے جنہوں نے اِس کائنات میں صرف اﷲ کو ہی اپنا محبوب بنایا اُس کی رضا میں خود کو پورا ڈھال لیا اُس کی پسند نا پسند کو خود پر طاری کر لیا ‘عبادت ریاضت اور مجاہدوں سے اُس کا قرب خاص حاصل کیا ‘قطرہ سمندر سے ملا اور پھر یہی انسان روحانی قوتوں کو بیدار کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں شب و روز مشغول ہوتا گیا ‘یہ انسان عام انسانوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں‘ تاریخ کے اوراق ہر دور میں ایسے روشنی کے میناروں سے بھرے پڑے ہیں کہ عقل دنگ اور خوشگوار حیرت میں ڈوب جاتی ہے ۔ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ بابا فرید گنج شکرؒ کے عظیم مرید حضرت نظام الدین اولیا ؒ روحانی منازل طے کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف تھے ہر طرف آپ کی شہرت اور دربار نظامی کا چرچہ تھا ‘عام آدمی سے لیکر شہنشاہ وقت تک آپ کے دیدار اور حاضری کے لیے تڑپتے رہتے، ہزاروں کا مجمع ہر وقت آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سراپا انتظارکھڑا رہتا ‘جہاں لاکھوں دلوں پر آپ کی حکومت تھی وہیں پر چند سرکش ایسے بھی تھے جو آپ کی شہرت اور اعلیٰ مقام سے جلتے تھے اور آپ کے خلاف باتیں کرتے تھے ۔انہی میں سے ایک چھجو نامی آدمی بھی تھا، غرور اور تکبر اُس کی ہر ادا سے جھلکتا تھا، بہت زیادہ زبان دراز تھا ‘گالی دئیے بغیر بات نہیں کرتا تھا، وہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کے بہت زیادہ خلاف اور حاسد تھا ‘بدتمیزی اور خودسری اُس کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی جب بھی اُس کے سامنے حضرت نظام الدین اولیا ؒ کا نام آتا تو وہ بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا اور سرِعام گالیاں بھی دیتا، لوگ اُس سے اکثر پوچھتے کہ تم گالیاں کیوں دیتے ہو تمھاری اُن سے کیا دشمنی ہے اُنہوں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے تو وہ اور بھی بے ہودہ گفتگو شروع کردیتا، اُس کا رویہ آپ کے چاہنے والوں کے لیے بہت زیادہ اذیت ناک تھا ‘یہ لوگ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کرچھجوکی بدتمیزی اور گالیوں کا ذکر کرتے اور اجازت مانگتے کہ اگر آپ کہیں تو اسکی زبان بندی کردی جائے۔لیکن درویش وقت نے ہر دور کے درویش کی طرح اعلیٰ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور شفقت بھرے لہجے میں کہتے خدا اُس کا بھلا کرے، جب چھجو کی بدتمیزیاں اور گستاخیاں بہت بڑھ گیءں تو مریدین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں وہ آپ کو جسمانی نقصان نہ پہنچائے تو مریدوں نے اجازت چاہی کہ اُس کو سختی سے روکا جائے تو حضرت نظام الدین اولیا ؒ ناگواری سے بولے یہ میرا اور اُس کا معاملہ ہے تم درمیان میں بلکل نہ آؤ اور پھر اپنے مریدوں کو احساس دلایا کہ اگر وہ بدتمیز جھگڑالو ہے تو تم بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہتے ہو تو اُس میں اور تم میں کیا فرق رہ گیا، چھجو اُسی طرح آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اور آپ آرام سے برداشت کرتے رہے اور پھر ایک دن یہ نافرمان شخص چھجو دنیا سے چلا گیا تو عقیدت مند نے آکر کہا یا حضرت آج وہ برائی کا سرچشمہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا، حضرت نظام الدینؒ یہ سن کر اداس ہو گئے اور پوچھا بتاؤ اُس کو کہاں دفن کیا گیا ہے ‘بتانے والے نے جگہ بتادی تو حضرت نظام الدینؒ خود چل کراُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لیے بارگاہ الٰہی میں ہاتھ پھیلا دئیے اور اِس طرح دعا کی اے مالک ارض و سما یہ شخص مجھے برُا کہتا تھا اور میرے لیے بُرے خیالات بھی رکھتا تھا لیکن اِس کے باوجود میں نے اِس کو معاف کیا اے اﷲ تُو بھی اِس کی گستاخیوں کو معاف کرنا اِس نے میرے ساتھ جو بھی بُرا کیا تو اُس کے لیے اِس کو سزا نہ دینا میری وجہ سے تیرے کسی بندے کو تکلیف نہیں ہو نی چاہیے ‘اے اﷲ تو اِس کے تمام گناہ معاف کردے۔یہ ہوتے ہیں ’’اولیاء اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کے دوست یہی وہ لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی حقیقی اطاعت کر تے ہیں اور اﷲ اِن سے محبت فرماتا ہے، یہ اپنے سے خوش اور خدا ان سے راضی ہوتا ہے یہ اپنے پروردگار کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں اور پھر وہ ان کی کوئی درخواست رد نہیں کرتا یہ مالک کائنات کے سامنے ہی جھکتے ہیں دنیاوی خداؤں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے اور پھر خالق ارض و سماکائنات کی مخفی قوتوں اور مخلوق کادل ان کی طرف مائل کردیتا ہے، پھر مالک ہواؤں فضاؤں پر اِن کا نام لکھ دیتا ہے پھر ہر طرف اِنہی اولیاء اﷲ کا ڈنکا بجتا ہے یہ وہ مقدس گروہ ہے جسے اولیاء اﷲ کی جماعت کہا جاتا ہے یہ رب ذولجلال کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مرضی اور خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوتے ہیں پوری کائنات میں اِن کی ترجیح اول صرف اورصرف خدا کی ذات ہوتی ہے۔جن کا وجود لوگوں کے لیے باعث رحمت ہو، جنہیں دیکھ کر مل کر خداکی یاد آئے ، جن کے پاس چند گھڑیاں گزار کر زندگی کا قرینہ بدل جائے، جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کمتر اور دین برتر نظر آئے ، جن کی باتوں سے خوشبو آئے جن کی تعلیمات، وجود ، کردار اورگردوپیش بھی خدا کا انعام لگے ، جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے، جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر ؐ کا مظہر ہوں، یہ بڑے عجیب اور خاص لوگ ہوتے ہیں خدمت مخلوق کی کرتے ہیں اجرت خدا سے ما نگتے ہیں، قدم فرش پر جماتے ہیں خبر عرش کی لاتے ہیں، ٹاٹ کی گدڑی اِن کا لباس اور گھاس پھوس کی جھونپڑی اِن کا محل ہوتا ہے، یہی وہ لوگ تھے جو خاک بسر رہے لیکن تاریخ میں امر ہو گئے، یہ وہ خاک نشیں تھے جو ہمسایہ جبریل امین بن گئے جن کی کٹیا میں چراغ نہیں تھا ان کی قبر سے آج چشمہ نور اُبلتا ہے، جن کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی تھی آج ہزاروں انسان اُن کے آستانوں پر پلتے ہیں، جو لوگ انہیں دھکے دیتے ہیں یہ اُ سے سینے سے لگاتے ہیں، جو انہیں بدعائیں دیتے ہیں یہ ان کی بلائیں لیتیں ہیں، جو انہیں شہر سے نکالتے ہیں یہ انہیں دل میں جگہ دیتے ہیں۔
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
 

نگاہ مرد مومن

کالم : بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956
روزِ اوّل سے اِس کرہ ارض پر دو طرح کے لوگ طلوع اور غروب ہوتے رہے ہیں اور حشر تک یہ سلسلہ اِسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ اِن میں ایک وہ جو ’’تاجور‘‘ کہلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو ’’دیدہ ور‘‘ ہوتے ہیں، اِن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ تاجور صدیوں کے غبار کی نذر ہوجاتے ہیں جبکہ دیدہ ور پیوند خاک ہوکر بھی تاریخ کے سینے پر ثبت ہوجاتے ہیں چشم فلک نے بار بار ایسا منظر دیکھا کہ کبھی جن کے سروں پر ہیرے موتیوں سے دسجے تاج روشن تھے آج اُن کی قبروں کی خاک اُڑ رہی ہے، جو دامن چاک نظر آتے تھے اُن کے نام کی شہرت زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے، جو کبھی چوبداروں کے ہجوم میں چلاکرتے تھے آج اُن کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے اور جو شہروں بستیوں سے دور جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں فرش نشین پڑے رہتے تھے آج دنیا اُن کی نسبت پر فخر محسوس کرتی ہے اور جن کی پیشانی پرنازک سی ایک سلوٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا تھا وہ گردش زمانہ کی نذر اِس طرح ہوئے کے تاریخ نے اُن کے ناموں پر گمنامی کا کفن ڈال دیا اور جن کی جبینِ نیاز میں خالق ارض و سماء کی اطاعت و محبت کے سجدے تڑپتے تھے آج اُن کی چوکھٹ پر بادشاہ وقت کُہنیا رگڑ تے نظر آتے ہیں۔اقتدار کی چند ساعتوں پر قابض لوگ صدیوں کے غبار میں کھو گئے اور بوریا نشین تاریخ کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہے ہیں، تاریخ کی مراد ایسے عظیم لوگ کہ جس وقت کرہ ارض کے کسی گوشے میں جب بھی طلوع ہوئے ہزاروں گناہ گاروں کو صرف ایک نظر سے ہی نیکوکاروں میں شامل کرتے گئے، نگاہ مرد مومن سے انسانی تقدیر کا تبدیل ہوجانا کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ تاریخ انسانی میں ہزاروں ایسے واقعات سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں جب کسی مردمومن کی ایک نظر سے گناہ گاروں کی دنیا ہی بدل گئی، ایسے ہی عظیم ترین مرد مومن حضرت خواجہ معین الدین ؒ چشتی اجمیری بھی ہیں برصغیر پاک و ہند کی پوری تاریخ میں غریبوں نادار و بے بسوں سے محبت کرنے والا شاید ہی کوئی دوسرا انسان گزرا ہو۔برصغیر پاک و ہند کی سب سے زیادہ با اثر اورپر کشش شخصیت ، جنہوں نے ہندوستانی تاریخ کا دھارا ہی بدل ڈالا اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اپنے ورثے میں کروڑوں مسلمان چھوڑے، آپ سراپا محبت تھے اپنی اِسی ادا کی وجہ سے ہندو مسلم آپ کو ’ ’غریب نواز‘‘ سمجھتے ہیں آپ کی زندگی کرامت مسلسل تھی ایک دفعہ دوران سیاحت آپ سبزوار تشریف لائے ابھی چند دن ہی گزرے ہونگے کہ مقامی باشندوں کی ایک جماعت آپ کی بارگاہ میں حاضرہوئی اور درد ناک لہجے میں اپنی داستان ظلم سنائی۔’’سیرا لعارفین‘‘ میں حامد بن فضل اﷲ نے اِس واقع کو اِسطرح بیان کیا ہے، یہاں کا حکمران یادگار محمد ایک ظالم جابر حکمران تھا، اپنے ظلم و ستم سے لوگوں کی زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی معمولی باتوں پر سخت سزائیں دینا اُس کا شیوہ تھا اپنے ظلم و تکبر میں اِس حد تک بڑھ گیا تھا کہ صحابہ کرام سے بغض و عدات رکھتا تھااِن مقدس ہستیوں کی شان میں مسلسل بے ادبی اور گستاخیاں کرتا جن لوگوں کے نام صحابہ کرام کے ناموں پررکھے گئے تھے انہیں مختلف بہانوں سے سخت سزائیں دیتا، اُس نے اپنی عیاشی کے لیے شہر سے باہر ایک باغ بنایا تھا جسے وہ جنت کہتا تھا یہاں شراب کباب اور رقص و سرور کی محفلیں سجاتا خوبصورت عورتیں شراب پلاتیں، ایک دن حضرت خواجہ معین الدینؒ اِس باغ میں داخل ہوئے یادگار کے حوض میں غسل کیا دو رکعت نماز ادا کی اور تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوگئے اِسی دوران یادگار کے ملازم کی نظر آپ پر پڑی تو وہ فوری آپ کے پاس آیا اور منت کی کہ آپ یہاں سے چلے جائیں یادگار بہت ظالم ہے اُس نے آپ کو دیکھ لیا تو قیامت ٹوٹ پڑیگی، حضرت غریب نواز ؒ نے اُس کی باتوں پر دھیان نہ دیا اور اُسے کہا تم درخت کے نیچے بیٹھ جاؤ کچھ نہیں ہوتا۔اِسی دوران یاد گار کے کچھ اور ملازم بھی آگئے اُنہوں نے حضرت خواجہؒ سے پوچھنا چا ہا کہ آپ اِس باغ میں کیسے آگئے لیکن آپ کے جلال معرفت کی تاب نہ لاسکے کہ اُن کی زبانیں گنگ ہو گئیں لہٰذا چپ چاپ حوض کے کنارے قالین بچھائے اور اُن پر شراب کے برتن رکھے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعدبد کرداریادگار اپنے مصاحبوں کے ہمراہ باغ میں آپہنچا حضرت خواجہ معین الدینؒ کو دیکھ کراپنے ملازموں پر برس پڑا یہ کون ہیں جو ہمارے عشرت کدے میں داخل ہو گئے ہیں، خوف و دہشت سے ملازموں کے جسم تھر تھر کانپ رہے تھے اُنہیں اپنا بھیانک انجام نظر آرہا تھا ملازموں کی حالت زار دیکھ کر شہنشاہ اجمیر ؒ اٹھے اوریادگار کے سامنے جاکر بولے میں اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں اور مجھے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔تیرے یہ ملازم بے قصور ہیں اِن پر ظلم مت کر ، یادگارکی نظریں جیسے ہی آپ کی پُرجلال نظروں سے ٹکرائیں تو آپ کے جلالِ معرفت کی تاب نہ لاسکا بولنا چاہا لیکن قوت گویائی کھو بیٹھااُس کے ملازم بھی سنگی مجسموں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے، اور پھر خواجہ معین الدینؒ نے ایک خاص نگاہِ کرم سے یادگار کو دیکھا ایک بجلی چمکی جو یادگار کی روح کے عمیق ترین گوشوں کو منور کر گئی، یادگار تاب نہ لاسکا لڑکھڑایا اور بے جان بت کی طرح زمین پر گر گیا اور بے ہوش ہو گیا یادگار کے بیہوش ہوتے ہی اُس کے ملازموں اور مصاحبوں نے بھی عقیدت و احترام سے اپنے سر جھکا دئیے اب حضرت خواجہؒ نے ملازم سے کہا حوض کا پانی لے کر اِس کے منہ پرچھڑکو آپ کے حکم پر ملازم حرکت میں آیا اور پانی لے کر یادگار کے منہ پر چھڑکنا شروع کیا، حضرت خواجہؒ کے حکم سے پانی کی چند بوندوں کے پڑھنے سے ہی یادگار ہوش میں آگیا۔اُس کا جسم نیم جان ہو چکا تھا اُس نے پوری قوت سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھ نہ سکا آخر خود کو گھسیٹ کر اپنا سر حضرت خواجہؒ کے قدموں پر رکھ دیا، شہنشاہ ہند کی پرُ جلال آواز گونجی کیا تو اپنے گناہوں، ظلم اورعقائد سے تائب ہوا؟ یادگار کی لرزتی آواز ابھری ہاں سرکار میں اپنی حماقتوں اور عقائد سے تائب ہوا حضرت آپ کی نظر سے میرا سینہ اور روح روشن ہوگئی، خدا کی قسم تمام اصحاب رسول ﷺ میرے لیے بہت قابل احترام ہیں اُن کے قدموں سے لپٹی خاک میری آنکھوں کا سرُمہ ہے یادگار عقیدت بھرے انداز سے صحابہ کرام کی شان اور عظمت کا اعتراف کر رہا تھا، خواجہ غریب نوازؒ آگے بڑھے اُس کی پشت پر اپنا دست شفقت رکھا ظالم یادگار اب لرزتے قدموں سے کھڑا ہوگیاعقیدت سے اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، خواجہ غریب نوازؒ نے اُسے حکم دیا وضو کرے دو رکعت نماز ادا کرے یادگار کی دنیا بدل چکی تھی، پھر جب شہنشاہ اجمیرؒ باغ سے رخصت ہونے لگے تو یادگار نے دامن پکڑ کر التجا کی کہ اُسے ہمیشہ کے لیے غلامی کا شرف بخشا جائے حضرت خواجہؒ سرکارنے اُسے بیت کیا ، یادگار کا ہاتھ جیسے ہی خواجہؒ کے ہاتھ میں آیا دنیا ہی بدل گئی ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کردی تو شہنشاہ اجمیرؒ نے حکم دیا یہ ساری دولت اُن لوگوں میں تقسیم کردو جو تیرے ظلم و ستم کا شکار ہوئے یادگار نے کھڑے کھڑے ساری دولت تقسیم کردی، غلاموں،نوکروں اور کنیزوں کو آزاد کردیا، یادگار ساری زندگی آپ کے قدموں میں گزارنا چاہتا تھا مگر حضرت خواجہؒ نے اُسی مقام پر لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے اُسے مقرر کیا اور پھر چشم آسماں نے یہ منظر دیکھا کل تک جو خود گمراہ تھا آج وہی لوگوں کو ہدایت کے لیے بلارہا تھا۔شہنشاہ اجمیرؒ کی ایک نظر نے یادگار کی زندگی بدل ڈالی۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
 

حادثات سے نجات

 
کوئی معاشرہ کس قدر منظم اورمہذب ہے اس بات کااندازہ اس کے شہریوں کی ڈرائیونگ سے باآسانی لگایاجاسکتا ہیں۔پاکستان سمیت دنیا بھرمیں شب وروز شاہراہوں پرخونیں حادثات رونماہوتے ہیں اوران کے نتیجہ میں کئی قیمتی جانوں کاضیاع ہوتا ہے ۔یقیناان اندوہناک اورالمناک حادثات کاسبب قوانین سے بیزاری اوران کی عدم پاسداری ہے ۔جو لوگ دوران ڈرائیونگ قوانین کااحترام کرتے ہیں ان کاسفر آسان اورپرسکون گزرتا ہے ۔کچھ حادثات دوسروں کی مجرمانہ غفلت جبکہ کچھ ہماری اپنی بے پرواہی سے بھی ہوتے ہیں۔دوران ڈرائیونگ عجلت اورغفلت دونوں صورتوں میں زہرقاتل ہے ۔ شاہراہوں پرگاڑیوں کی بے ہنگم آمدروفت کے نتیجہ میں صرف ہماری نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی کیلئے بھی خطرات پیداہوجاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں ہم انسانوں کی طرح گاڑیوں کابھی ماہانہ بنیادوں پر '' چیک اپ'' ہوناچاہئے کیونکہ زیادہ ترحادثات کاسبب بیمار گاڑیاں بنتی ہیں۔قوانین ہم انسانوں کے فائدے کیلئے بنائے جاتے ہیں ۔جس معاشرے میں قانون شکنی عام ہوجائے وہاں مختلف حادثات،سانحات اوراجتماعی اموات کاراستہ کوئی نہیں روک سکتا ۔طبقاتی تقسیم اورتفریق سے معاشروں پرنحوست چھاجاتی ہے لہٰذاء طاقتوراورکمزورکیلئے ایک قانون ہوناچاہئے ۔معاشرے میں وی آئی پی کلچر سے شدیدنفرت اوراس کیخلاف مزاحمت کے باوجود اس کی نحوست ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی ۔شاہراہوں پرجابجاوی آئی پی کلچر کامنظردیکھنے میں آتا ہے۔وی آئی پی موومنٹ کے نام پرعام شہریوں کیلئے گھنٹوں شاہراہوں کی بندش کاسلسلہ بندکیا جائے ۔اگرکالے شیشوں والی گاڑیوں کیخلاف کاروائی کی جائے توکسی وی آئی پی کی گاڑی کو استثنیٰ نہیں ملناچاہئے ۔
پچھلے دنوں لاہور اورراولپنڈی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا بھرمیں حادثات کی روک تھام کیلئے ٹریفک کا عالمی دن منایا گیااوراس سلسلہ میں شعوراجاگر کرنے کیلئے مختلف پروقار تقریبات منعقدکی گئیں ۔اس مناسبت سے لاہورمیں 16نومبر سے22نومبر تک سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ بھرپورجوش وجذبہ اور اٹلس ہنڈا کے تعاون سے ٹریفک ویک منارہے ہیں ۔لاہورپولیس کے انتھک کپتا ن محمدامین وینس،متحرک سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ اوراٹلس ہنڈا کے نیشنل سیفٹی منیجر تسلیم شجاع نے طلبہ وطالبات اورشہریوں کے ہمراہ فیصل چوک میں موم بتیاں روشن کرکے مختلف حادثات میں ہلاک ہونیوالے شہریوں کے بلندی درجات کیلئے اجتماع دعا کی ۔تسلیم شجاع اٹلس ہنڈا کی طرف سے لاہورٹریفک پولیس کی ہرمہم میں تن من دھن سے شریک ہوتے ہیں۔بعدازاں شہریوں میں ٹریفک قوانین کی آگہی کے سلسلہ میں موثر پیغامات والے پمفلٹ تقسیم کئے ۔اس قسم کی سرگرمیوں میں طلبہ برادری کوشریک کرنا خوش آئند ہے کیونکہ وہ ہمارامستقبل اورمادر وطن کے معمار ہیں ،تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ سی سی پی اولاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس پولیس کے ہرشعبہ میں بھرپوردلچسپی رکھتے ہیں ۔ محمدامین وینس خودبھی ماضی میں لاہورٹریفک پولیس کی قیادت کر تے رہے ہیں لہٰذاء ان کاتجربہ اورجذبہ سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ کو خاصی مدددے رہا ہے۔اگرکپتان مردمیدان اور مردانہ وارخطرات سے کھیلتا ہوتوپھرباقی ٹیم ممبرز کی صلاحیتوں اوران کے جذبوں میں نکھارپیداہوجاتا ہے۔ امن وامان برقراررکھنے کیلئے کس سے کیا کام لیا جائے لاہور پولیس کے کپتان محمدامین وینس کواس بات کا بخوبی علم ہے۔میں سوچتا ہوں اگرمحمدامین وینس کراچی میں ہوتے تویقیناًوہاں بھی امن کی بحالی کیلئے دوررس تجربات کرتے اورکامیابی سے ہمکنارہوتے مگرپھر سوچتاہوں ان کے سندھ چلے جانے کی صورت میں پنجاب کے پاس کیا رہ جائے گا ۔میں وثوق سے کہتاہوں جب پنجاب پولیس کی باگ دورکیپٹن (ر)محمدامین وینس کے مضبوط ہاتھوں میں آئے گی توپوراپنجاب ان کی نیک نیت کی برکت سے مستفیدہوگااورپولیس فورس پولیس سروس بن جائے گی ۔اگرآئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرا اپنے پیشروآئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن سمیت دوسرے پولیس آفیسرز بھی فیلڈ میں نکلیں اور شہریوں سے گفتگوکریں تویقیناان کے اس اقدام سے پولیس پرعوام کااعتمادبحال جبکہ اہلکاروں کامورال بلندہوگا۔پریس ریلیز جاری اوردوسروں کی بازپرس کرنے کے سوابھی آئی جی پنجاب کے کرنیوالے کئی اہم کام ہوتے ہیں۔جس طرح حاجی حبیب الرحمن کوتھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے پنجاب کے مختلف شہروں اورتھانوں میں دیکھا گیا اس طرح مشتاق احمدسکھیراکی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں ۔پنجاب کے کئی تھانوں میں ابھی تک حاجی حبیب الرحمن کی تصویرنہیں اتاری گئی کیونکہ ان کاکام بولتا تھا اوروہ پریس ریلیز پراکتفانہیں کرتے تھے ۔
شاہراہوں پر حادثات سے بچاؤجبکہ مہذب ومنظم ٹریفک کیلئے شعوربیدارکرنے کیلئے موادتعلیمی نصاب کاحصہ بنایا جائے ۔سی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ اورسی ٹی اوراولپنڈی شعیب خرم جانباز اپنے اپنے کام سے انصاف کررہے ہیں ۔ لاہوراورراولپنڈی سمیت تمام شہر وں میں ٹریفک کی روانی کاراستہ قانون کی حکمرانی سے ہوکرجاتا ہے ۔سی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ اورسی ٹی اوراولپنڈی شعیب خرم جانباز اپنے اپنے اندازسے شہریوں میں محفوظ ڈرائیونگ کاشعور اجاگر کرنے کیلئے مختلف صحتمند سرگرمیوں کااہتمام کرتے ہیں ۔سی ٹی اوراولپنڈی شعیب خرم جانبازنے مری میں برفباری کے دوران ٹریفک کنٹرول کرنے کیلئے اپنے وارڈنزکو چارپہیوں والے جدیداورمحفوظ موٹرسائیکل فراہم کئے ہیں ،اس سے ان کی مجموعی کارکردگی پرمثبت اثرپڑے گا ۔سی ٹی اولاہور طیب حفیظ چیمہ کی قیادت میں شہرلاہورمیں ٹریفک ویک کے سلسلہ میں سیمینارزمنعقدہوں گے ،ٹریفک واک ہو گی اوردوسری تقریبات کااہتمام کیا جائے گا۔طیب حفیظ چیمہ نے جس طرح ون ویلنگ روکنے کیلئے ایک بھرپوراورموثرمہم شروع کی ہوئی ہے اس کی کامیابی کیلئے شہریوں سمیت مختلف طبقات کوبھی اپنااپناکرداراداکرناہوگا ۔میں سمجھتاہوں وہ شاہراہیں جہاں ون ویلنگ کی جاتی ہے ان شاہراہوں کیلئے وارڈنزکی الگ الگ ٹاسک فورس بنائی جائے جوصرف ون ویلنگ کے نام پراپنی زندگی اوراپنے ماں باپ کی امیدوں اوران کے خوابوں سے کھیلنے والے گمراہ نوجوانوں کیخلاف کامیاب کریک ڈاؤن کرے ۔ لاہورمیں کچھ شاہراہوں پرخطرناک اندازسے کارریس بھی ہوتی ہے اورلوگ ان پرجوابھی کھیلتے ہیں ۔مہذب معاشروں میں کسی شہری کونام نہادتفریح کی آڑمیں اپنی بیش قیمت زندگی داؤپرلگانے اورقانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ نے ٹریفک ایجوکیشن کاجوبیڑااٹھایا ہے ،اپنی اوراپنے پیاروں کی زندگی سے محبت کرنیوالے شہری لاہور اورراولپنڈی سمیت مختلف شہروں کے سٹی ٹریفک چیف اوران کی ٹیم سے بھرپورتعاون کریں کیونکہ قوانین کی پاسداری ان کی زندگی کومزید خوشگواربناسکتی ہے۔میں سمجھتاہوں اگرشہریوں میں قوانین کی پاسداری کے سلسلہ میں شعوراجاگرکیا جائے تووہ ارباب اختیارکو مایوس نہیں کریں گے۔ شہروں میں اورشاہراہوں پرامن وامان کیلئے حکام اورعوام کے درمیان مختلف ایشوزپرمسلسل ڈائیلاگ سے یقیناًبہتری آئے گی۔
سی ٹی اولاہور طیب حفیظ چیمہ جہاں دوران ڈرائیونگ سیٹ بیلٹ کی پابندی یقینی بنارہے ہیں وہاں وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہماری ماؤں بہنوں کوبٹھاکراونچی آوازمیں بیہودہ گا نے لگانے والے ڈرائیورز کیخلاف بھی کریک ڈاؤن کریں ۔ قانونی طورپرپبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی کی اجازت نہیں ہے مگرڈرائیورز سمیت زیادہ ترشہری اس قانون کودھویں میں اڑارہے ہیں لہٰذاء پبلک ٹرانسپورٹ میں سموکنگ پر پابندی یقینی بنائی جائے ۔دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں جبکہ پریشر ہارن استعمال کرنے والے ڈرائیورز کیخلاف بھی منظم مہم ناگزیر ہے کیونکہ یہ فضائی آلودگی کاسبب بنتی ہیں ۔پبلک ٹرانسپورٹ کاکوئی ڈرائیورایک دن میں آٹھ گھنٹوں سے زیادہ ڈرائیونگ نہ کرے ہماری ٹریفک پولیس اس بات کوبھی یقینی بنائے،ٹرانسپورٹرز کواعتمادمیں لے کرایک ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے اورجوٹرانسپورٹر اپنے ڈرائیورز سے آٹھ گھنٹو ں سے زیادہ کام لے اس کیخلاف بھی قانونی کاروائی ضرورہونی چاہئے ۔ مشاہدے میں آیا ہے زیادہ تروارڈنز چھپ کرکھڑے ہوتے ہیں اور شہریوں کی طرف سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کاانتظارکرتے ہیں ۔میں سمجھتاہوں اگر وارڈنز ٹریفک سگنل کے عین پاس اورنمایاں اندازسے کھڑے ہوں توان کے ڈر سے قانون شکنی اوربالخصوص سگنل توڑنے کے رجحان میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔سزاسے زیادہ قانون کاڈر ہوناضروری ہے جوشہریوں کوقانون شکنی سے روکے اورسب کی زندگی محفوظ رہے ۔موٹرسائیکل سواروں کیلئے ہیلمٹ کی پابندی اچھی بات ہے ، حادثہ ہونے کی صورت میں جہاں ہیلمٹ چہرہ بچانے کے کام آتاہے وہاں کچھ لوگ اس سے اپنے چہرے بھی چھپاتے ہیں لہٰذاء ہیلمٹ میں سیاہ شیشہ استعمال نہ کرنے دیا جائے ۔ٹریفک پولیس کی کارکردگی کوبہتر سے بہتربنانے کیلئے سی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ اورسی ٹی اوراولپنڈی شعیب خرم جانباز کے صادق جذبوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم شہریوں کی صلاحیتوں اورتوانائیوں سے استفادہ کرنے کیلئے ا ن کی تحریری تجاویز بھی لی جاسکتی ہیں۔
لاہورمیں پولیس کے بڑے بڑے نیک نام اور اعلیٰ آفیسرزکام کرچکے ہیں ۔پنجاب کے سابق باوفااورباصفا آئی جی حاجی حبیب الرحمن جو اپنے منصب پرعزت سے رہے اور باوقاراندازسے ریٹائرڈہوئے ۔حاجی حبیب الرحمن ہوں یا مشتاق احمدسکھیراہرکسی نے اپنے منصب سے سبکدوش ہونا ہے مگر آبرومندانہ رخصتی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ پنجاب پولیس کے زیرک اور نیک نام ڈی آئی جی جوادڈوگربھی لاہورمیں اہم عہدوں پر ڈیلیورکرتے رہے ہیں لیکن آج کل ریلوے پولیس میں ان سے بھرپور کام لیا جارہا ہے۔ان کی خدادادصلاحیت اور پیشہ ورانہ قابلیت سے پنجاب پولیس کا طویل مدت سے استفادہ نہ کرناایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔جوادڈوگرکاشماران ٹاپ ٹین پروفیشنل آفیسرزمیں ہوتا ہے جوپولیس کی روح کوسمجھتے ہیں۔پنجاب پولیس کے پاس جوادڈوگرکی طرح کے ذہین اورنڈرپولیس آفیسرز نہ ہونے کے برابر ہیں مگران سے کام نہیں لیا جاتا۔کیونکہ سیاست کی طرح اب پولیس میں بھی سمجھداری کی بجائے ارباب اقتدارواختیار کے ساتھ وفاداری کو میرٹ بنالیا گیا ہے۔جوپولیس کی اے بی سی تک سے آشنانہیں وہ پولیس آفیسرزکے انٹرویو کرکے ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ کافیصلہ کرتے ہیں ،آئی جی پنجاب کاعہدہ نمائشی بنادیا گیا ہے۔ مشتاق احمدسکھیراکو اپنے ادارے اورمنصب کی عزت بچانے سے زیادہ اپنی مدت پوری کر نے میں دلچسپی ہے اسلئے جوادڈوگر سے قابل پولیس آفیسرز ریلوے میں بیٹھے ہیں جبکہ پنجاب پولیس کاہراہم فیصلہ ان کی بجائے کوئی اورکرتا ہے
 

تذکرہ, چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور

(حافظ الطاف حسین انجم ڈھلوں)
ایم اے میڈیا سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی
ٹکٹ ہولڈر حلقہ پی پی 270 ( JUI-F )
E.mail: tazkirahnews@gmail.com

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور جو کہ پاکستان کی جنوب مغربی بندرگاہ گوادرسے شروع ہو کر3000 کلومیٹر دور ویسٹرن چائنہ کے شہر کاشغر پر اختتام پذیر ہوگا۔یہ کوریڈورروڈز، ریل ٹریک ، آئل اور گیس پائپ لائن اور آپٹیکل فائبر پر مشتمل ہوگا۔ اس پورے پراجیکٹ پر چائنہ 45.69 بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ کرنے کا پاکستان سے معاہدہ کر چکا ہے۔ اس کوریڈور کا تصور اگرچہ مشرف دور حکومت میں بھی موجود تھا۔لیکن چینی وزیر اعظم Li Keqiang نے اپنے دورہ پاکستان مئی2013 ء کے دوران باقاعدہ پر پیش کیا اور ڈسکشن کا موضو ع بنا۔
اس انوسٹمنٹ پلان کا بریک اپ کچھ اسطرح سے ہے کہ انوسٹمنٹ کا زیادہ تر حصہ انرجی سیکٹر کی تعمیرو ترقی پر خرچ ہوگا۔ مثلاً انرجی سیکٹر پر33.79 بلین ڈالرز ، روڈز موٹروے نیٹ پر 5.90 بلین ڈالر ز، ریلوے نیٹ ورک پر 3.69 بلین ڈالرز، لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پر 1.60 بلین ڈالرز ، گوادر پورٹ پر0.66 بلین ڈالر ز، گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ پر 0.11 بلین ڈالرز اور چائنہ پاکستان آپٹک فائبرپر0.04 بلین ڈالر زخرچ ہوگا۔ اب ہم اسکی دیگر تفصیلات ڈسکس کرتے ہیں۔
CPEC پراجیکٹ کے تحت انرجی سیکٹر میں بہاولپور میں1000 میگا واٹ کا سولر پاور پراجیکٹ ، جس میں سے100 میگا واٹ پہلے ہی تعمیر ہو چُکا ہے۔ سکی کناری ، خیبر پختونخواہ میں 870 میگا واٹ کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ، کیروٹ ، آزاد کشمیر میں720 میگا واٹ کا ہائیڈرو پراجیکٹ ، ٹھٹھہ سند ھ میں 50,50 میگا واٹ کے تین ونڈپاور پراجیکٹ اور 100 میگا واٹ کا اُوچ انرجی پاور پراجیکٹ، پورٹ قاسم پر سندھ میں660 میگا واٹ کے2 عدد کول پاور پراجیکٹ ، جھنپرسندھ، ونڈ پراجیکٹ ، دادو سندھ ونڈ پراجیکٹ ، ہبکو بلوچستان کول فائر پاور پراجیکٹ، گوادر نوابشاہ ایل این جی ٹرمینل اینڈ گیس پائپ لائن کی تعمیر شامل ہے۔جبکہ حویلیاں میں ڈرائی پورٹ کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح Climate Change پراجیکٹ گوادر، چائنہ پاکستان جوائنٹ کاٹن بائیو ٹیک لیبارٹری ، چائنہ پاکستان جوائنٹ میرین ریسرچ سنٹر، پریس، پبلیکیشنز، ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن سیکٹر میں چائنہ انفارمیشن سنٹر اور سی سی ٹی وی کے تعاون سے براڈ کاسٹنگ اینڈ نیشنل ہیریٹیج آف پاکستان پر ورک ہوگا۔ اسی طرح Chengdu سٹی اور لاہورسٹی ، زوہائی سٹی اور گوادر سٹی کو سسٹر سٹی قرار دیا گیاہے۔
اب ہم اکنامک کوریڈور کے تحت روڈز نیٹ ورک اور ریل ٹریک کو ڈسکس کرتے ہیں۔یہ اکنامک کوریڈور پاک چائنہ تعلقات کی بنیادی اور سب سے مضبوط اکائی ہے۔ بلکہ سنٹر پوائنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور چینی وزیر خارجہ کے بقول "The Corridor will serve as a driver for connectivity between south asia and east asia" ۔ اس پراجیکٹ کے تحت انرجی سیکٹر میں10,400 میگا واٹ کی پیداوار کا اضافہ ہوگا۔ جبکہ یہ انوسٹمنٹ پلان پاکستان کی سالانہ GDP کے 20 فیصد کے برابر ہے۔ اگرچہ چینی صدر نے پاکستان کا دورہ اپریل 2015 ء میں کیا ۔ لیکن CPEC پراجیکٹ پر تقریباً پونے دو سال قبل ہی کام شروع کر دیا گیا تھا اور 27 اگست 2013 ء کو ہی اسلام آباد میں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور سیکرٹریٹ کا افتتاح کر دیا گیا تھا۔ عملی کام دھرنا سیاست کی وجہ سے ایک سال لیٹ ہوا۔ ورنہ ستمبر 2014 میں ہی چینی صدر کے شیڈول دورہ پاکستان کے ساتھ ہی کام کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا۔ اس ملٹی پل کوریڈور پلان کے تحت تین روٹس تعمیر ہونگے۔ جن میں مغربی روٹ ، وسطی روٹ اور مشرقی روٹ شامل ہیں۔ مشرقی روٹ جس کی کل لمبائی 2775 کلومیٹر ہوگی وہ گوادر، تربت، پنجگور، ناگ، بسیمہ، قلات، کوئٹہ، قلعہ سیف اﷲ ، ژوب، ڈی آئی خان سے N-55 کے ذریعہ بنوں، پشاور اور وہاں سے M1 سے منسلک ہو کر اسلام آباد ، حویلیاں، تھاہکوٹ ، مانسہرہ ، آزاد کشمیر، گلگت، خنجراباور کاشغر پر مشتمل ہوگا۔ اسی طرح وسطی روٹ جس کا کل فاصلہ 2781 کلو میٹر ہوگا ۔ وہ بھی گوادر پورٹ سے شروع ہو کر تربت، پنجگور، ناگ، بسیمہ، خضدار، رتو ڈیروسندھ ، سکھر ، گھوٹکی ، کشمور، صادق آباد، رحیمیار خان، ظاہر پیر، اُوچ شریف، جلالپور پیروالہ، شجاع آباد ، ملتان ، خانیوال ، جھنگ، گوجرہ، فیصل آباد ، لاہور، اسلام آباد سے براستہ ہزارہ موٹروے، حویلیاں وہاں سے بذریعہ قراقرم ہائی وے ، گلگت، خنجراب اور کاشغر پر مشتمل ہوگا۔ اس وسطی روٹ میں گوادر، رتو ڈیرو موٹروے پر تقریبا 70 فیصد کام مکمل ہو چُکا ہے۔ اسی طرح فیصل آباد ، ملتان سیکشنM4 پر بھی کام جاری ہے۔جبکہ M5, M6 ملتان ، سکھر سیکشن کے لئے زمین کے حصول کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ہم مشرقی روٹ کی بات کرتے ہیں۔ جو کہ گوادر سے بذریعہ مکران کوسٹل ہائی وے کراچی اور کراچی سے بذریعہ موٹروے حیدر آباد اور سکھر پر مشتمل ہوگا۔ سکھر سے آگے یہ روٹ وسطی روٹ پر مشتمل ہوگا۔ اس کوریڈور کے تحت بلوچستان میں3366 کلومیٹر طویل روڈز اور ریل نیٹ وارک تعمیر ہوگا۔ جبکہ خیبر پختونخواہ میں کل 802 کلو میٹر طویل روڈ اور ریل نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے 653 کلو میٹر ، انڈس ہائی وے 1264 کلو میٹر اور قراقرم ہائی وے 1300 کلو میٹر کو بھی اپ گریڈ کیا جائیگا۔فیصل آباد ، گوجرانوالہ، ملتان اور کراچی میں میٹرو بس پراجیکٹ کی تعمیر بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح گوادر میں ہانگ کانگ اور سنگا پور کی طرز پر فری ٹریڈ زون اکنامک سٹی اور سمندر میں19 کلو میٹر طویل شاہرہ ایسٹ بے کی تعمیر بھی منصوبہ میں شامل ہے۔ اسی طرح ایک ہائی وے ملتان ، ڈی جی خان ، رکھنی اور لورالائی کے درمیان زیر تعمیر ہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ اگر اس ہائی وے کو ایکسپریس میں تبدیل کر دیا جائے اور اسے کوئٹہ تک توسیع دی جائے تو نہ صرف کوئٹہ کی تنہائی دور ہوگی ۔ بلکہ کوئٹہ بھی مین سٹریم کا شہر بن کر معاشی اور معاشرتی طور پر بے پناہ ترقی کرے گا اور کوئٹہ ملتان کے درمیان ایک مضبوط تجارتی ، تعلیمی اور سوشل رابطہ قائم ہوگا۔ جس کے بے پناہ مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اسی طرح اس مجوزہ ملٹی پل روڈنیٹ ورک کے ساتھ انڈسٹریل زون بھی قائم کئے جائیں۔ تاکہ اس کوریڈور سے تجارتی فوائد بھی حاصل کئے جائیں۔ اس کوریڈور اور چائنہ ورک فورس کی حفاظت کے لئے پاک آرمی 9 بٹالین پر مشتمل فورس تیار کرے گی۔ جس کی قیادت ایک میجر جنرل کے پاس ہوگی اور یہ فورس 12,000 جوانوں اور افسروں پر مشتمل ہوگی۔
اس طرح یہ روٹ پاکستان کے نہ صرف چاروں صوبو ں سے گزرے گا ۔ بلکہ آزاد کشمیر کو چھوتے ہوئے گلگت ، بلتستان میں اختتام پذیر ہوکر کاشغر کو لنک کرے گا۔ ہمارہ مشورہ ہے اور جیسا کہ اس منصوبہ کی توسیع کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے۔ اس روٹ کو اگر شمال مشرق میں توسیع دے کر اور ضلع چترال سے گزار کربراستہ واخان کو ریڈور ایک سرنگ بنا کر تاجکستان سے لنک کر دیا جائے۔ تو یہ روٹ نہ صرف CASPIAN SEA ، سنٹرل ایشیاء ، رشین فیڈریشن اور ترکی کو بھی بلکہ مشرقی یورپ کو بھی گوادر تک رسائی مہیا کر سکتا ہے۔
اس روٹ کے استعمال سے قبل چائنہ ، مڈل ایسٹ ریجن اور ایران سے اپنی آئل امپورٹ و دیگر برآمدات و درآمدات کے لئے Strait of Malaca کا روٹ استعمال کرتا ہے۔ جوکہ انتہائی طویل اور پر خط راستہ ہے۔ گوادر کاشغر روٹ کے استعمال سے چائنہ کی آپریشنل کاسٹ ایک تہائی کم ، جبکہ یو اے ای سے سنٹرل چائنہ تک کا فاصلہ 16,000 کلو میٹر کی بجائے صرف5800 کلو میٹر اور ویسٹ چائنہ تک صرف 3600 کلو میٹر رہ جائیگا ۔ اگر چائنہ صرف اپنی آئل امپورٹ کا 50 فیصد اس کوریڈور کو استعمال کرتے ہوئے منگوائے تو اُسے روزانہ6 ملین ڈالر اور سالانہ 2 بلین ڈالر کی بچت متوقع ہے۔ چائنہ اور پاکستان کے درمیان اس وقت صرف 16 بلین ڈالر کی سالانہ تجارت ہے۔ جس میں 12.57 فیصد سالانہ اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس ٹریڈ روٹ کے استعمال سے اس میں نہ صرف 100 گنا اضافہ ممکن ہے۔ بلکہ ٹریڈروٹ کے مکمل طور پر آپریشنل ہونیکے بعد گوادر پورٹ پر پوری دنیا کی 30 فیصد بحری تجارت کی بھی توقع ہے۔
اس طرح یہ ٹریڈ روٹ اور گوادر رپورٹ پاکستان کے خزانہ کو سالانہ کم از کم 10 تا15 بلین ڈالر کی سپورٹ کرنے کے قابل ہونگے۔ اور اندرون ملک تجارتی حجم میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ گوادر پورٹ اور CPEC ملٹی پل ٹریڈ روٹ پاکستان کے لئے عطیہ خداوندی اور نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ خدارا اسے ہر گز ہرگز منفی سیاست کی نذر نہ کیجیئے گا

 

تذکرہ, گوادر پورٹ

(حافظ الطاف حسین انجم ڈھلوں)

ایم اے میڈیا سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی

ٹکٹ ہولڈر حلقہ پی پی 270 ( JUI-F )


Click Here and Contact With Email
لفظ گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ (Wind) Gwat اور DAR (Gateway) سے ماخوذ ہے۔ اس طرح گوادر کا مطلب Gateway of Wind بنا ایک اور تھیوری کے مطابق گوادر پرانے بلوچی نامGardoria سے ماخوذ ہے۔ جس کا مطلب بارانی صحرا ئی علاقہ ہے۔ یہ نام یونانیوں نے بلوچستان کر دیا ۔ جب الیگزینڈر دی گریٹ کی افواج یہاں سے گزری تھیں۔ اب یہ یہی " گیٹ واے آف ونڈ" نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کے لئے معیشت کا گیٹ وے بننے جا رہا ہے۔گوادر تزویراتی طور پر گلف آف اومان اور رشین گلف کے دہانے اور بحیرہ عرب کے Apex پر واقع گہرے اور گرم پانیوں کی ایک تہائی اہم بندرگاہ ہے۔ یہ کراچی سے 700 کلو میٹر جبکہ ایرانی بارڈر سے صرف 200 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ گوادر رپورٹ قدرتی طور پر 47 فٹ تک انتہائی گہری ہے اور مدرشپس کو با آسانی ہینڈ ل کیا جا سکتا ہے جو کہ کراچی بندرگا ہ کی گودی پر نہیں لگ سکتے ۔ یہ شہر آئل ، گیس اور ٹرانزٹ کارگو میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔
گوادر کی آبادی بھی بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح انتہائی قدیم دور سے ہے۔ جسے تاریخ میں Branz Age کہا جاتا ہے۔ پہلے پہل بلوچستان کو مکران کہا جاتا تھا اور یہ کبھی قدیم فارس کا حصہ تھا۔ جس کے بانی سائرس اعظم تھے۔ الیگذینڈر دی گریٹ کی افواج نے جب برصغیر سے واپسی کا رخ اختیار کیا تو اُس کے امیرالبحر " یزچیس" کی قیادت میں ایک فلیٹ ساحل مکران سے گزرا تھا اور انہوں نے ہی یہ نوٹ کیا کہ یہ خشک پہاڑی علاقہ اور مچھیروں کی چھوٹی سی بستی ہے۔یہ 303 ء قبل مسیح کا دور تھا کہ یونانی بادشاہ الیگزینڈر دی گریٹ کی سلطنت کے انہدام کے بعد یہ علاقہ اُسی کے ایک جنرل "Seleucus nicate" کے زیر انتظام بھی رہا ۔ اُس وقت تک اس علاقہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ حضرت حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں عرب مسلم آرمی نے 643 ء میں مکران فتح کر لیا۔ اس سے پہلے یہ علاقہ مختلف قوتوں نے فتح کیا اور اُن کے زیر کنٹرول بھی رہا۔ عرب مسلم آرمی کی آمد سے تقریبا دو صدیاں قبل تک یہ علاقہ مقامی بلوچ قبائل کے زیر حکومت رہا۔ 1550 ء میں یہ شہر خلافت عثمانیہ کے امیر بحر سعیدی علی رئیس نے بھی وزٹ کیا اور انہوں نے اس کا ذکر اپنی کتاب " میراۃ الممالک " ( The Mirrs of Countries) میں بھی کیا ہے۔ سعیدی علی رئیس کے مطابق گوادر کے باشندے بلوچ تھے۔ اور اُن کا سردار ملک دینا ر کا بیٹا ملک جلال الدین تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں پرتگیزیوں نے اومان اور انڈیا کا بہت سا علاقہ فتح کر لیا اور انہوں نے مکران کے ساحلی علاقہ جات کو بھی ساتھ شامل کر نے کی منصوبہ بندی کی ۔ پر تگیزی مہم جو واسکوڈے گاما کی زیر قیادت گوادر پر حملہ کیا گیا ۔ لیکن کمانڈر اسماعیل بلوچ کی افواج نے اُن کو شکست دی ۔ کئی دفعہ پرتگیزیوں نے ساحلی شہروں کو لوٹا اور آگ لگائی ۔ لیکن گوادر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ پرتگیزی افواج کی پرانی توپیں گوادر کی سنٹرل جیل کے پاس ملی ہیں اور سردار اسماعیل بلوچ کی قبر پر بھی گوادر کے ہٹل پہاڑ کے قریب ملی ہے۔ جسے میرا سماعیل بلوچ نے اپنی زندگی میں خود ہی تعمیر کروایا تھا۔ جبکہ وہ 1873 ء میں فوت ہوئے۔
میرا اسماعیل بلوچ نے گچکی بلوچ قبائل کو شکست دے کر قلات سمیت گوادر اور اُ کے آس پاس کا تمام علاقہ فتح کر لیا تھا۔ لیکن چونکہ عملی طور پر اس وسیع وعریض صحرائی علاقے کا کنٹرول مشکل تھا۔ اس لئے گچکی سردار سے معاہدہ کر کے اور اپنی اتھارٹی تسلیم کرواکر گوادر کا کنٹرول اُن کو واپسی کر دیا ۔ معاہد ہ میں یہ طے پایا کہ گچکی سردار ریونیو کلیکشن میں 50 فیصد حصہ خان آف قلات کو پہنچائے گا۔ اسطرح یہ انتظام 1873 ء تک چلتا رہا۔ حتی کیہ خان آف قلات میر نوری نصیر خان بلوچ نے گوادر اومان کے تخت سے محروم حکمران تیمور سلطان کو1873 ء میں گفٹ کر دیا ۔ جب تیمور سلطان نے اومان کا تخت دوبارہ حاصل کر لیا تو اُ نے گوادر میں اپنا گورنر مقرر کر دیا تو اومانی گورنر نے قریبی ساحلی علاقہ چاہ بہار کو بھی اپنے زیر اثر لانے کی کوششیں کی ۔ قلعہ گوادر اومانی دور حکومت کے دوران تعمیر ہوا۔ جبکہ گوادر تک ٹیلیگراف لائن انگریزوں نے بچھائی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت آف اومان کا حصہ تھا اور آج بھی بہت سے گوادری اومان کی مسلح افواج اور پولیس میں ملازم ہیں اور اومان و پاکستان کی دہری شہریت رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ آف پاکستان نے کمال دانشمندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس مستقبل کے گیٹ آف ٹریڈ گوادر انکلیوں کی اومان کے ساتھ 8 ستمبر 1958 میں ڈیل کی اور باقاعدہ 5.5 ملین ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے بعد 8 دسمبر 1958 کو گوادر کو پاکستان کا حصہ بنا لیا۔ گوادر کی خریداری کے سلسلہ میں رقم کا زیادہ تر حصہ شہزادہ علی سلطان محمد شاہ اور سر آغا خان نے عطیہ کیا۔ جبکہ بقیہ رقم ٹیکس لگا کر اکٹھی کی گئی۔ اس وقت کی بھارتی حکومت نے بھی پاکستان کو گوادر سے محروم کرنے کے لئے گوادر کی بڑھ چڑھ کر بولی لگائی اور بہت زیادہ سرگرمی دکھائی لیکن حکومت پاکستان نے کمال دانشمندی سے تمام معاملات طے کئے اور اومانی سلطنت نے بھی اس پاکستانی مؤقف کی تائید کی کہ گوادر تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے پاکستانی بلوچستان کا ہی حصہ ہے۔ اور پاکستان کا اس پر حق فائق ہے ۔ بھارت کسی بھی طرح اس کے حصول میں حق بجانب نہیں ہے۔ یکم جولائی 1977 ء میں اس علاقہ کو ایک مکمل سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ گوادر کی موجودہ آبادی تقریباً 85000 نفوس پر مشتمل ہے۔ جوکہ شاید آئندہ چند سال تک ایک ملین کو بھی کراس کر جائیگی ۔
مختلف ادوار میں گوادر پورٹ کی تعمیر شروع کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بین الاقوامی قوتوں کے پریشر پر یہ منصوبہ التواء کا شکار ہوتا رہا۔ میاں محمد نواز شریف کے دوسرے مختصر دور حکومت 1996 ء سے1998 ء تک گوادر پورٹ کو چائنہ کے تعاون سے ڈویلپ کرنے کا منصوبہ بنا اور گیارہ موٹروے سیکشن اس منصوبہ کا حصہ تھے۔ جن کے ساتھ ہر 300 کلومیٹر کے بعد نئے صنعتی شہر بسائے جانے تھے۔ لیکن بین الاقوامی طاقتوں کی سازش اور ناعاقبت اندیش ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے گریٹ گیم کا یہ سارا پلان چوپٹ کر دیا اورملک کو پرائی لڑائی میں جھونک دیا ۔ جس سے پاکستان کا پورا وجود لہو لہان اور معیشت ڈگر گوں حال کو جا پہنچی۔ اگرچہ مشرف دور حکومت میں ہی گوادر کی تعمیر کا غلغلہ بڑے زور شور سے بلند ہوا۔ لیکن غلط پالیسوں کے باعث بار آور ثابت نہ ہو سکا۔
گوادر پورٹ کی ڈویلپمنٹ کا سٹ 248 ملین ڈالر ہے۔ جو کہ پاکستان اور چائنہ نے مشترکہ طور پر برداشت کی ہے۔ 20 مارچ 2007 ء کو گوادر پورٹ کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ گوادر کا ماسٹر پلان2003 ء میں حکومت پاکستان نے منظور کیا ۔ جس کے تحت گوادر 30 کلومیٹر چوڑائی اور 90 کلو میٹر لمبائی کا 270 مربع فٹ کلومیٹر پر محیط شہر اور فری پورٹ ہوگی۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی اُسی دور میں 2003 میں ہی قائم کی گئی ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 2011 ء میں گوادر کو صوبے کا سرمائی دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا 2013 ء میں مرکز میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت بننے کے بعد 5 جولائی 2013 کو گوادر کے سلسلہ میں ہی روایت سے ہٹ کر پہلا سرکاری دورہ سعودیہ کی بجائے چائنہ کا کیا گیا تاکہ گوادر پر دوبارہ انتظام چائنہ کو دیے دیا گیا۔ اس سے قبل مشرف دور حکومت میں ایک دس سالہ معاہدہ کے تحت گوادر پورٹ کا انتظام سنگا پور ٹ اتھارٹی کو دیا گیا۔ جو اسے فنکشنل نہ کر سکی۔ سنگا پور اتھارٹی کو گوادر پور ٹ کا انتظام سونپنا سراسر پاکستان کے ساتھ زیادتی اور چائنہ کے ساتھ بھی نا انصافی تھی۔ کیونکہ گوادر کی ڈویلپمنت کا زیادہ تر خرچہ تو چائنہ نے برداشت کیا تھا اور دوسری بات یہ کہ چائنہ انٹر نیشنل پریشر بھی برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جبکہ سنگا پور جیسا انتہائی چھوٹا جزیرہ اور کمزور ملک قطعی طور پر یہ سب کچھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اور یہ ہی چیز گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے میں رکاوٹ بنی۔
اور اب چائنہ CPEC معاہدہ کے تحت پاکستان میں 46 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ بھی کرنے جا رہا ہے۔ جسے روکنے کے لئے بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹ آئی۔ اور ملکی معیشیت کا پہیہ جام ہوا۔ اب چائنہ گوادر پورٹ کو فل سکیل کمرشل پورٹ کے طور پر ڈویلپ اور فنکشنل کرنے کے لئے مزید 750 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ کرے گا۔ یہ پورٹ پاکستان اور چائنہ دونوں ممالک کے لئے سٹریٹجک لحاظ سے بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ چائنہ کی تمام برآمدات و درآمدات کا انحصار اس وقت Strait of Malaka کی انتہائی غیر محفوظ گزرگاہ سے ہے۔ جو کہ اس بندرگارہ اور گوادر کاشغر ریٹ کے استعمال سے نہ صرف محفوظ ہو جائیگی ۔ بلکہ 16000 کلو میٹر سے سمٹ کر فاصلہ بھی صرف 3000 ہزار کلو میٹر رہ جائیگا۔
چائنہ کا زیادہ تر آئل پریشین گلف سے شنگھائی پورٹ پر آتا ہے۔ جس پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اور کارگو میں بھی 2 سے 3 ماہ کا وقت لگتا ہے۔ راستے میں بحری قزاق ، خراب موسم ، سیاسی دشمنی اور کئی دیگر خطرات ہیں۔ جو نہ صرف ختم ہو جائینگے۔ بلکہ آپریشنل کا سٹ بھی 75 فیصد تک کم ہو جائیگی۔ اور پھر گوادر گرم پانیوں کی بندرگاہ ہونیکی وجہ سے سارا سال آپریشنل بھی رہیگی۔ فروری 2013 ء میں ہی ایران نے4.000 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ سے گوادر میں ایک آئل ریفائنری قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کی ریفائننگ گنجائش 4.00 لاکھ بیرل روزانہ ہوگی۔ اسی پلان کے تحت ایران اپنی سرزمین سے گوادر پورٹ تک کروڑ آئل کی ایک پائپ لائن بھی بچھائے گا۔ خود چائنہ بھی گوادر میں کروڑ آئل کی ایک ریفائنری قائم کرے گا۔ جس کی گنجائش 60.00 ہزار بیرل روزانہ ہوگی۔ رشین گورنمنٹ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں2.00 بلین ڈالر کی انوسٹمنت کرے گا اور اگر جیسا کہ ہم نے اپنے پچھلے کالم" واخان کوریڈور" کی اہمیت کے پیش نظر اس میں حکومت پاکستان پر زور دیا تھا۔ پاکستان واکان کوریڈور بھی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان نہ صرف باآسانی ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے۔ بلکہ پورے ایشیا میں ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہب بھی بن جائیگا۔ اگر صرف اکیلا چائنہ گوادر پورٹ اور CPEC کے استعمال پر پاکستان کو سالانہ کم از کم 500 ملین ڈالر کا فائدہ دے سکتا ہے تو رشین فیڈریشن ، سنٹرل ایشیاء ، ترکی ، ایران ، افغانستان اور بھارت کتنا فائدہ دے سکتے ہیں۔ گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے پر پاکستان بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے انتہائی پر کشش ملک بن جائیگا۔ کوریا ، جاپان ، سنگا پور ، عرب امارات ، ملائیشیا ء اور انڈونیشیا بالخصوص جبکہ یورپ اور امریکہ بھی پاکستان میں انوسٹمنٹ کرنے کے لئے پر تولنے لگیں گے۔
پاکستان کو چاہئے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کو ڈویلپ کرنے اور صحیح استعمال میں لانے کے لئے وہاں پر زیتون کی کاشت کا تجربہ کرے اور ایران کے بارڈر پر200 کلو میٹر لمبی موٹروے یا کم از کم ایکسپریس وے اور ریلوے لائن تعمیر کرے ۔ اسطرح پاک ایران اور پاک ترک تجارت میں کم از کم 100 گنا اضافہ ہو جائیگا۔ 

 

تحریک پاکستان اور بہاولپور


 پاکستان سے بہاولپور کا الحاق امیر بہاولپور کے جذبہ حُب الوطنی اور اسلام دوستی کا مر ہون منت ہے
*۰۰۰ ڈاکٹر سید شاہد رضوی
آزادی سے پہلے بہاول پور میں قانونی طورپر نہ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت تھی اور نہ سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آسکتا تھا تاہم لوگوں نے اپنے اپنے سیاسی معتقدات ورحجانات کے مطابق یہاں کچھ تنظیمیں قائم کی ہوئی تھیں جنہیں وہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتی تھیں ۔بظاہر یہ جماعتیں مذہبی اوررفاہی قسم کی تھیں جیسے انجمن اشاعت سیرت النبی اور حزب اللہ لیکن بہ باطن ان کا مقصد یہی تھا ۔جو بیرون ریاست مسلم لیگ اور نیشنل کانگریس کا چناچہ جو لوگ ان جماعتوں سے منسلک تھے وہ بالواسطہ مسلم لیگ یا کانگریس کے حامی تھے مسلم لیگی نظریہ کے حامل لوگوں کے مقابلے میں کانگریسی خیال کے لوگ یہاں زیادہ منظم تھے انہیں وسائل و ذرائع بھی نسبتاً زیادہ میسر تھے یہاں کی ہندو آبادی جو یہاں کی معیشت پر چھائی ہوئی تھی ان کی پشت پناہ اور معین و مددگار تھی ۔اس کے علاوہ نیشنلٹ علماء کا بھی یہاں کافی اثرتھا یہاں کے مذہبی جلسوں میں جن کا اہتمام حزب اللہ کے ہاتھ میں ہوتا تھا یہ علما بڑی کثرت سے آتے تھے سید عطا ء اللہ شاہ بخاری اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے تو گویا بہاول پور کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا ۔
اس کے برعکس مسلم لیگی خیالات کے علمبر دار بالکل بے ذربے پر تھے ۔ انہیں نہ اندرون ریاست کسی سرمایہ دار کی سرپرستی حاصل تھی اور نہ بیرون ریاست مسلم لیگ کے لیڈروں سے کوئی زیادہ ربط وضبط تھا ۔ یہ کبھی کبھار میلاد کی محفلیں منعقد کر لیتے تھے لیکن ان میں بھی کسی جید اور مشہور عالم کو یہ کبھی باہر سے نہ بلوا سکے ۔، فی الحقیقت انجمن اشاعت سیرت النبیؐ سیاسی قلندروں کی ایک ایسی جماعت تھی جو محض اپنے جوش عمل اور جذبہ اخلاص سے ایک با اثر اور طاقتورحریف کو زیر کرنا چاہتی تھی ۔
1939-40ء میں جب پاکستان کی تحریک بڑے زوروں پر تھی اور یہ خیال تھا کہ اس کے اثرات بہاولپور میں بھی پہنچیں گے ۔ حزب اللہ نے بہاولپور میں حکومت خود اختیاری کا نعرہ بلند کر دیا اور کمال دانائی سے انجمن اشاعت سیر ت النبی کے ارکان کو بھی اس مسئلہ میں لجھا دیا اور صرف اس پر بس نہیں کہ بلکہ کچھ ایسا ڈول ڈالا کہ حزب اللہ اور انجمن اشاعت سیرت النبیؐ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ۔ دونوں کے اشتراک سے ایک نئی جماعت قائم ہوئی جس کانام جمعیت المسلمین رکھا گیا۔ اس جماعت کا بظاہر مقصد ریاستی عوام کے لئے ذمہ دارانہ نظام حکومت کا حصول تھا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو جماعت اب تک تحریک پاکستان کو جمیع مسلمانان ہند کی تمام خرابیوں کا حل سمجھتی تھی اوہ بھی اپنے مقصد سے ہٹ کہ ذمہ دارانہ نظام حکومت کے نعرے کے ساتھ بہہ گئی ۔
حزب اللہ کے ارکان کو جب یہ اطمینان ہوگیا کہ انجمن اشاعت سیرت النبیؐ بہاولپور کی اندرونی سیاست میں الجھ گئی ہے اور اب وہ انکی راہ میں مزاحم نہیں ہوگی انہوں نے چپکے چپکے یہاں باقاعدہ مجلس احرار کے قیام کو ششیں شروع کر دیں اور بیرون ریاست کے کانگریسی اور احراری لیڈروں سے مل کر ریاست میں سیاسی تحریک چلانے کا پروگرام بنایا ۔ انجمن اشاعت سیر النبیؐ ؐکے علاوہ جمعیت المسلمین میں خود کو ختم کرکے عملی طورپر حزب اللہ کے زیر اثر آگئے تھے بہاولپور میں مجلس احرار کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھ کر بڑے متفکر ہوئے اور ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی تدبیر کرنے لگے ۔ اسی اثناء میں (1940ء)میں مسلم لیگ نے قرار داد منظور کر لی ۔ جو انجمن اشاعت سیرت النبیؐ کے ارکان کو اور زیادہ متحرک کرنے کا موجب ہوئی اورا نہوں نے بالاآخر جمعیت المسلمین سے علیحدگی اختیار کرکے مسلم بورڈ کے نام سے ایک علیحدہ جماعت بنائی جس کے صدر پیر زادہ محمد سلیم اسلم تھے ۔ آگے چل کر مسلم بورڈ اور جمعیت المسلمین میں تو اتحاد ہوگیالیکن خدا م وطن جس کا حقیقی گٹھ جوڑمجلس احرار اور جمعیت علمائے ہند سے تھا بد ستور تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی مخالفت کرتی رہی۔
جوں جوں پاکستان کی منزل قریب آرہی تھی اس مخالفت میں اضافہ ہورہا تھا۔چنانچہ عین اس وقت جب پاکستان معرض وجود میں آرہاتھا اور بہاولپور کی آئندہ حیثیت کا تعین ہوناتھا خدا م وطن کے صدر نے پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کی مخالفت میں یہ بیان دیا ۔
’’ریاست کو اس ڈومینین میں شامل ہونا چاہیے جو ریاستی عوام کی خوشحالی کی ضامن ہوا ور جس کے ذریعے کھانڈ،کپڑا اور نہری پانی فراوانی سے مل سکے۔ خواہ وہ ڈومینین پاکستان ہو یا ہندوستان ‘‘
اس بیان کا بہاولپور کے لیگی حلقوں میں شدید ردعمل ہوا مسلم بورڈ نے اس کے خلاف جلسے منعقد کرکے گانگریس کے پٹھوؤں کو بے نقاب کیااور رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں ہموار کیا ۔ امیر بہاولپور نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی ان دنوں لندن میں مقیم تھے لیکن ان کے ولی عہد بریگیڈیر محمد عباس عباسی بہاولپور میں موجود تھے اور بہاولپور کے عوام کے جذبات سے نواب صاحب کو باخبر رکھے ہوئے تھے وہ خود بھی نظریہ پاکستان کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ ہزہائی نس پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کی جلد از جلد منظوری دیدیں۔
ہزہائی نس کے متعلق بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کا جھکاؤ ہند وستان کی طرف ہے۔ چونکہ پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کا فوری اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے لوگوں کے ان شکوک کو تقویت پہنچ رہی تھی ۔ ادھر کانگریس اور احراری حلقوں کا پراپیگنڈہ بھی بہت زبردست تھا جسکی وجہ سے لوگ ہیجان میں مبتلا تھے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کے اعلان میں ہزہائی نس کو کوئی تامل نہ تھا بلکہ انکی سرکاری مشینری اس سلسلے میں کچھ ضروری امور طے کرنے میں مصروف تھی جس کی وجہ سے یہ تاخیر ہوگئی ۔ جہاں تک ہزہائی نس کے ذاتی جذبات کا تعلق تھا وہ شروع سے مسلمانوں کا مستقبل مسلم لیگ کی تحریک سے وابستہ سمجھتے تھے ۔ خدا نے انہیں تدبرو فراست کی بے پایاں دولت سے نواز ا تھا۔ ان کے د ل میں قوم کا درد تھا وہ برصغیر کی سیاست سے بظاہر بے تعلق رہنے کے باجود مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے ۔ انکی سیاسی بصیرت اور اسلام دوستی اس واقعہ سے آشکار ا ہے کہ قیام پاکستان سے کافی دن پہلے جب ان سے کسی نے یہ سوال کیا کہ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد آپ کس ڈومینین سے الحاق کرنا پسند کریں گے ۔ تو انہوں نے بلا جھجک یہ جواب دیا کہ پاکستان کا دورازہ میرے سامنے کھلتا ہے اور ہندوستان کا دروازہ میرے پیچھے ۔لہذا کوئی شریف آدمی سامنے والے دروازے کو چھوڑ کر پچھلے دروازے سے جانا کبھی پسند نہیں کر سکتا بہر حال نواب سر صادق محمد خان نے بغیر کسی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے پاکستان سے ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا اس طرح تین سو میل لمبے بارڈ پر مشتمل ریاست جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کا دل ہے ، پاکستان میں باقاعدہ شامل ہوگئی

بسم اللہ الرحمن الرحیم،فیوض و برکات کا خزینہ پریشانی سے چھٹکارہ

سید مشہود حسن رضوی
اس بھاگ دوڑ اور نفسا نفسی کے عالم میں ہر ایک شخص دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہے ۔کامیابی و کامرانی کے زینے طے کرنیکے لیے ہر جائز اور ناجائز حربے استعمال کرتا ہے لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور مومنوں کو وہ کلمات سکھا دیے ہیں کہ جن کے ورد سے نہ صرف دشمن کے حملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ دین و دنیا کی رحمتیں اور برکتیں بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ جو شخص سچے دل سے اللہ رب العزت کے ان کلمات کا ورد کرتا ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے ۔ کامیابی و کامرانی کا سب سے بڑا راستہ اسماء الحسنی ہیں۔قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ ہر کام کا آغاز اللہ تبارک وتعالیٰ کے بابرکت نام سے کرنا چاہیے لہذا ہمیں قرآن شریف کی اس آیت پر غور کرنا چاہیے جسمیں اللہ فرماتا ہے ’’میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے‘‘
یہی وہ الفاظ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو مزین فرمایا۔ سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا کہ خدا وند کریم نے دس چیزوں کو دس ہی چیزوں سے زینت دی ہے ، آسمان کو زینت ستاروں سے ،راتوں کو شب قدر سے ، فرشتوں کو جبرائیل علیہ السلام سے بہشت کو حوروں سے ، پیغمبر وں کو حضرت محمد ؐ سے ،دنوں کو جمعہ المبارک سے ، مہینوں کو رمضان شریف سے ، مسجدوں کو کعبہ شریف سے ، تمام کتابوں کو قرآن مجید سے اور قرآن مجید کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے مزین فرمایا ہے ۔‘‘
تو کیوں نہ ہم اس کی برکتوں سے بہرور ہوں ۔ یہ وہ کلام الٰہی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تو آپؐ نے فرمایا میری اولا د عذاب سے محفوظ رہے گی ۔ پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ پر نازل ہوئی۔ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے اوپر سرد فرما دیا ۔پھر حضرت موسی ؑ پر نازل ہوئی اس کی برکت سے وہ جادو گروں اور ہامان اور اس کے لشکر پر غالب رہے ، چوتھی بار حضرت سلیمان ؑ پر نازل ہوئی اور حضرت سلیمان ؑ کے بعد اس آیت کو اٹھا لیا گیا۔ پھرحضرت عیسیٰ ابن مریمؑ پر اتاری گئی توآپؑ نے اپنے حواریوں سے فرمایا اس آیت کو اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے کثرت سے پڑھا کرو۔جب اللہ پاک نے رسول کریم ؐ کومعبوث فرمایا اور جب مکہ میں سورۃ فاتحہ اتاری گئی تو اس کے ساتھ بسم اللہ اتاری گئی ۔ رسول ؐ نے حکم دیا کہ قرآن کریم کی سورتوں ، خطوں اور کتابوں کے شروع میں یہ آیت لکھی جائے ۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ جو مسلمان کسی کام کے آغاز میں بسم اللہ پڑھتا ہے تو اس کے کام میں ضرور برکت ڈالتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ نازل فرمائی تو بادل مشرق کی طرف دوڑپڑے ہوائیں تھم گئیں، سمندر میں موجیں اٹھنے لگیں، جانور ہمہ تن گوش ہوگئے، شیطانوں پر آسمان سے پتھر برسنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قسم کھائی کہ جس چیز پر اس کا نام لیا جائے گا اسے شفا عطا فرمائے گا او رجس چیز پر پڑھا جائے گا اس میں برکت ڈال دے گا۔جس نے بسم اللہ پڑھی وہ جنت میں داخل ہوگا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے انیس (19) فرشتوں سے نجات دے تو انیس(19)بار بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہر حرف کو ان میں سے ایک کے سامنے ڈھال بنا دیتا ہے ۔
حضرت محمد مصطفیؐ کا فرمان ہے کہ جو انسان بسم اللہ الرحمن پڑھتا ہے تو اس کے سنتے ہی شیطان /جنات اس طرح پگھل کر دور ہو جاتا ہے جس طرح آگ میں رانگ ۔ آقائے دو جہاں نے بسم اللہ کی یہ برکت فرمائی ہے کہ جب تم انسانوں کے مجمع سے اٹھو تو اٹھتے وقت پڑھا کرو ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم صلی اللہ علیٰ محمد ۔ اس کے پڑھنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ لوگ تمہارے پیچھے تمہاری برائی نہ کریں گے بلکہ ایک فرشتہ تمہاری غیبت کرنے سے باز رکھے گا۔
جب کوئی شخص کہتا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم تو اس وقت خداوند کریم کرماًکاتبین کو حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کہ نامہ اعمال میں چار لاکھ درجے درج کر و اور اس کے نامہ اعمال سے چار لاکھ گناہوں کو مٹاد و ۔
ہم لوگ دنیا داری اور نمود ونمائش میں اس قدر کھوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کو بھول چکے ہیں اسی لیے گھروں میں خیروبرکت ختم ہو گئی ہے ، پریشانیوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اگر ہم اللہ رب العزت کی اس قسم کی طرف توجہ دیں جو اس نے بسم اللہ کے بارے میں کھائی ہے تو ہم تمام دنیاوی پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں مثلاً ہم اپنے گھروں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم جلی حروف میں لکھ کر لگائیں تو کبھی شیطان یا جن ہمارے گھر وں میں داخل نہیں ہو سکتا۔
بسم اللہ میں اللہ کا ذاتی نام بھی ہے اور صفاتی بھی لہذا اس کا ورد مشکلات سے نجات دلاتا ہے ۔ پریشانیوں سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے ۔ اللہ پاک کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔بسم اللہ کے حروف کا جائزہ لیں ’’ب‘‘باری تعالیٰ کی طرف اشارہ ہے،’’م‘‘سے عطاؤں کے ساتھ احسان کرنے والا یعنی’’منان‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ مختصر اً یہ بقول حضرت ابوبکرؓ ’’بسم اللہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے‘‘

Powered by Blogger.

 

© 2016 TIPS AND Tricks. All rights resevered. Designed by Templateism

Back To Top