کالم : بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956
روز اول سے اِس دھرتی پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان وارد ہوتا رہا ہے ‘زیادہ تر کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنا اور مٹی کا ڈھیر بن کر مٹی کا حصہ ہو گیا لیکن کروڑوں انسانوں کی اِس بھیڑ میں ہر دور اور ہر خطے میں چند لوگ ایسے بھی طلوع ہوئے جنہوں نے اِس کائنات میں صرف اﷲ کو ہی اپنا محبوب بنایا اُس کی رضا میں خود کو پورا ڈھال لیا اُس کی پسند نا پسند کو خود پر طاری کر لیا ‘عبادت ریاضت اور مجاہدوں سے اُس کا قرب خاص حاصل کیا ‘قطرہ سمندر سے ملا اور پھر یہی انسان روحانی قوتوں کو بیدار کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں شب و روز مشغول ہوتا گیا ‘یہ انسان عام انسانوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں‘ تاریخ کے اوراق ہر دور میں ایسے روشنی کے میناروں سے بھرے پڑے ہیں کہ عقل دنگ اور خوشگوار حیرت میں ڈوب جاتی ہے ۔ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ بابا فرید گنج شکرؒ کے عظیم مرید حضرت نظام الدین اولیا ؒ روحانی منازل طے کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف تھے ہر طرف آپ کی شہرت اور دربار نظامی کا چرچہ تھا ‘عام آدمی سے لیکر شہنشاہ وقت تک آپ کے دیدار اور حاضری کے لیے تڑپتے رہتے، ہزاروں کا مجمع ہر وقت آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سراپا انتظارکھڑا رہتا ‘جہاں لاکھوں دلوں پر آپ کی حکومت تھی وہیں پر چند سرکش ایسے بھی تھے جو آپ کی شہرت اور اعلیٰ مقام سے جلتے تھے اور آپ کے خلاف باتیں کرتے تھے ۔انہی میں سے ایک چھجو نامی آدمی بھی تھا، غرور اور تکبر اُس کی ہر ادا سے جھلکتا تھا، بہت زیادہ زبان دراز تھا ‘گالی دئیے بغیر بات نہیں کرتا تھا، وہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کے بہت زیادہ خلاف اور حاسد تھا ‘بدتمیزی اور خودسری اُس کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی جب بھی اُس کے سامنے حضرت نظام الدین اولیا ؒ کا نام آتا تو وہ بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا اور سرِعام گالیاں بھی دیتا، لوگ اُس سے اکثر پوچھتے کہ تم گالیاں کیوں دیتے ہو تمھاری اُن سے کیا دشمنی ہے اُنہوں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے تو وہ اور بھی بے ہودہ گفتگو شروع کردیتا، اُس کا رویہ آپ کے چاہنے والوں کے لیے بہت زیادہ اذیت ناک تھا ‘یہ لوگ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کرچھجوکی بدتمیزی اور گالیوں کا ذکر کرتے اور اجازت مانگتے کہ اگر آپ کہیں تو اسکی زبان بندی کردی جائے۔لیکن درویش وقت نے ہر دور کے درویش کی طرح اعلیٰ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور شفقت بھرے لہجے میں کہتے خدا اُس کا بھلا کرے، جب چھجو کی بدتمیزیاں اور گستاخیاں بہت بڑھ گیءں تو مریدین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں وہ آپ کو جسمانی نقصان نہ پہنچائے تو مریدوں نے اجازت چاہی کہ اُس کو سختی سے روکا جائے تو حضرت نظام الدین اولیا ؒ ناگواری سے بولے یہ میرا اور اُس کا معاملہ ہے تم درمیان میں بلکل نہ آؤ اور پھر اپنے مریدوں کو احساس دلایا کہ اگر وہ بدتمیز جھگڑالو ہے تو تم بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہتے ہو تو اُس میں اور تم میں کیا فرق رہ گیا، چھجو اُسی طرح آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اور آپ آرام سے برداشت کرتے رہے اور پھر ایک دن یہ نافرمان شخص چھجو دنیا سے چلا گیا تو عقیدت مند نے آکر کہا یا حضرت آج وہ برائی کا سرچشمہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا، حضرت نظام الدینؒ یہ سن کر اداس ہو گئے اور پوچھا بتاؤ اُس کو کہاں دفن کیا گیا ہے ‘بتانے والے نے جگہ بتادی تو حضرت نظام الدینؒ خود چل کراُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لیے بارگاہ الٰہی میں ہاتھ پھیلا دئیے اور اِس طرح دعا کی اے مالک ارض و سما یہ شخص مجھے برُا کہتا تھا اور میرے لیے بُرے خیالات بھی رکھتا تھا لیکن اِس کے باوجود میں نے اِس کو معاف کیا اے اﷲ تُو بھی اِس کی گستاخیوں کو معاف کرنا اِس نے میرے ساتھ جو بھی بُرا کیا تو اُس کے لیے اِس کو سزا نہ دینا میری وجہ سے تیرے کسی بندے کو تکلیف نہیں ہو نی چاہیے ‘اے اﷲ تو اِس کے تمام گناہ معاف کردے۔یہ ہوتے ہیں ’’اولیاء اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کے دوست یہی وہ لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی حقیقی اطاعت کر تے ہیں اور اﷲ اِن سے محبت فرماتا ہے، یہ اپنے سے خوش اور خدا ان سے راضی ہوتا ہے یہ اپنے پروردگار کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں اور پھر وہ ان کی کوئی درخواست رد نہیں کرتا یہ مالک کائنات کے سامنے ہی جھکتے ہیں دنیاوی خداؤں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے اور پھر خالق ارض و سماکائنات کی مخفی قوتوں اور مخلوق کادل ان کی طرف مائل کردیتا ہے، پھر مالک ہواؤں فضاؤں پر اِن کا نام لکھ دیتا ہے پھر ہر طرف اِنہی اولیاء اﷲ کا ڈنکا بجتا ہے یہ وہ مقدس گروہ ہے جسے اولیاء اﷲ کی جماعت کہا جاتا ہے یہ رب ذولجلال کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مرضی اور خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوتے ہیں پوری کائنات میں اِن کی ترجیح اول صرف اورصرف خدا کی ذات ہوتی ہے۔جن کا وجود لوگوں کے لیے باعث رحمت ہو، جنہیں دیکھ کر مل کر خداکی یاد آئے ، جن کے پاس چند گھڑیاں گزار کر زندگی کا قرینہ بدل جائے، جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کمتر اور دین برتر نظر آئے ، جن کی باتوں سے خوشبو آئے جن کی تعلیمات، وجود ، کردار اورگردوپیش بھی خدا کا انعام لگے ، جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے، جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر ؐ کا مظہر ہوں، یہ بڑے عجیب اور خاص لوگ ہوتے ہیں خدمت مخلوق کی کرتے ہیں اجرت خدا سے ما نگتے ہیں، قدم فرش پر جماتے ہیں خبر عرش کی لاتے ہیں، ٹاٹ کی گدڑی اِن کا لباس اور گھاس پھوس کی جھونپڑی اِن کا محل ہوتا ہے، یہی وہ لوگ تھے جو خاک بسر رہے لیکن تاریخ میں امر ہو گئے، یہ وہ خاک نشیں تھے جو ہمسایہ جبریل امین بن گئے جن کی کٹیا میں چراغ نہیں تھا ان کی قبر سے آج چشمہ نور اُبلتا ہے، جن کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی تھی آج ہزاروں انسان اُن کے آستانوں پر پلتے ہیں، جو لوگ انہیں دھکے دیتے ہیں یہ اُ سے سینے سے لگاتے ہیں، جو انہیں بدعائیں دیتے ہیں یہ ان کی بلائیں لیتیں ہیں، جو انہیں شہر سے نکالتے ہیں یہ انہیں دل میں جگہ دیتے ہیں۔
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956
روز اول سے اِس دھرتی پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان وارد ہوتا رہا ہے ‘زیادہ تر کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنا اور مٹی کا ڈھیر بن کر مٹی کا حصہ ہو گیا لیکن کروڑوں انسانوں کی اِس بھیڑ میں ہر دور اور ہر خطے میں چند لوگ ایسے بھی طلوع ہوئے جنہوں نے اِس کائنات میں صرف اﷲ کو ہی اپنا محبوب بنایا اُس کی رضا میں خود کو پورا ڈھال لیا اُس کی پسند نا پسند کو خود پر طاری کر لیا ‘عبادت ریاضت اور مجاہدوں سے اُس کا قرب خاص حاصل کیا ‘قطرہ سمندر سے ملا اور پھر یہی انسان روحانی قوتوں کو بیدار کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں شب و روز مشغول ہوتا گیا ‘یہ انسان عام انسانوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں‘ تاریخ کے اوراق ہر دور میں ایسے روشنی کے میناروں سے بھرے پڑے ہیں کہ عقل دنگ اور خوشگوار حیرت میں ڈوب جاتی ہے ۔ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ بابا فرید گنج شکرؒ کے عظیم مرید حضرت نظام الدین اولیا ؒ روحانی منازل طے کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف تھے ہر طرف آپ کی شہرت اور دربار نظامی کا چرچہ تھا ‘عام آدمی سے لیکر شہنشاہ وقت تک آپ کے دیدار اور حاضری کے لیے تڑپتے رہتے، ہزاروں کا مجمع ہر وقت آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سراپا انتظارکھڑا رہتا ‘جہاں لاکھوں دلوں پر آپ کی حکومت تھی وہیں پر چند سرکش ایسے بھی تھے جو آپ کی شہرت اور اعلیٰ مقام سے جلتے تھے اور آپ کے خلاف باتیں کرتے تھے ۔انہی میں سے ایک چھجو نامی آدمی بھی تھا، غرور اور تکبر اُس کی ہر ادا سے جھلکتا تھا، بہت زیادہ زبان دراز تھا ‘گالی دئیے بغیر بات نہیں کرتا تھا، وہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کے بہت زیادہ خلاف اور حاسد تھا ‘بدتمیزی اور خودسری اُس کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی جب بھی اُس کے سامنے حضرت نظام الدین اولیا ؒ کا نام آتا تو وہ بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا اور سرِعام گالیاں بھی دیتا، لوگ اُس سے اکثر پوچھتے کہ تم گالیاں کیوں دیتے ہو تمھاری اُن سے کیا دشمنی ہے اُنہوں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے تو وہ اور بھی بے ہودہ گفتگو شروع کردیتا، اُس کا رویہ آپ کے چاہنے والوں کے لیے بہت زیادہ اذیت ناک تھا ‘یہ لوگ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کرچھجوکی بدتمیزی اور گالیوں کا ذکر کرتے اور اجازت مانگتے کہ اگر آپ کہیں تو اسکی زبان بندی کردی جائے۔لیکن درویش وقت نے ہر دور کے درویش کی طرح اعلیٰ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور شفقت بھرے لہجے میں کہتے خدا اُس کا بھلا کرے، جب چھجو کی بدتمیزیاں اور گستاخیاں بہت بڑھ گیءں تو مریدین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں وہ آپ کو جسمانی نقصان نہ پہنچائے تو مریدوں نے اجازت چاہی کہ اُس کو سختی سے روکا جائے تو حضرت نظام الدین اولیا ؒ ناگواری سے بولے یہ میرا اور اُس کا معاملہ ہے تم درمیان میں بلکل نہ آؤ اور پھر اپنے مریدوں کو احساس دلایا کہ اگر وہ بدتمیز جھگڑالو ہے تو تم بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہتے ہو تو اُس میں اور تم میں کیا فرق رہ گیا، چھجو اُسی طرح آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اور آپ آرام سے برداشت کرتے رہے اور پھر ایک دن یہ نافرمان شخص چھجو دنیا سے چلا گیا تو عقیدت مند نے آکر کہا یا حضرت آج وہ برائی کا سرچشمہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا، حضرت نظام الدینؒ یہ سن کر اداس ہو گئے اور پوچھا بتاؤ اُس کو کہاں دفن کیا گیا ہے ‘بتانے والے نے جگہ بتادی تو حضرت نظام الدینؒ خود چل کراُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لیے بارگاہ الٰہی میں ہاتھ پھیلا دئیے اور اِس طرح دعا کی اے مالک ارض و سما یہ شخص مجھے برُا کہتا تھا اور میرے لیے بُرے خیالات بھی رکھتا تھا لیکن اِس کے باوجود میں نے اِس کو معاف کیا اے اﷲ تُو بھی اِس کی گستاخیوں کو معاف کرنا اِس نے میرے ساتھ جو بھی بُرا کیا تو اُس کے لیے اِس کو سزا نہ دینا میری وجہ سے تیرے کسی بندے کو تکلیف نہیں ہو نی چاہیے ‘اے اﷲ تو اِس کے تمام گناہ معاف کردے۔یہ ہوتے ہیں ’’اولیاء اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کے دوست یہی وہ لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی حقیقی اطاعت کر تے ہیں اور اﷲ اِن سے محبت فرماتا ہے، یہ اپنے سے خوش اور خدا ان سے راضی ہوتا ہے یہ اپنے پروردگار کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں اور پھر وہ ان کی کوئی درخواست رد نہیں کرتا یہ مالک کائنات کے سامنے ہی جھکتے ہیں دنیاوی خداؤں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے اور پھر خالق ارض و سماکائنات کی مخفی قوتوں اور مخلوق کادل ان کی طرف مائل کردیتا ہے، پھر مالک ہواؤں فضاؤں پر اِن کا نام لکھ دیتا ہے پھر ہر طرف اِنہی اولیاء اﷲ کا ڈنکا بجتا ہے یہ وہ مقدس گروہ ہے جسے اولیاء اﷲ کی جماعت کہا جاتا ہے یہ رب ذولجلال کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مرضی اور خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوتے ہیں پوری کائنات میں اِن کی ترجیح اول صرف اورصرف خدا کی ذات ہوتی ہے۔جن کا وجود لوگوں کے لیے باعث رحمت ہو، جنہیں دیکھ کر مل کر خداکی یاد آئے ، جن کے پاس چند گھڑیاں گزار کر زندگی کا قرینہ بدل جائے، جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کمتر اور دین برتر نظر آئے ، جن کی باتوں سے خوشبو آئے جن کی تعلیمات، وجود ، کردار اورگردوپیش بھی خدا کا انعام لگے ، جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے، جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر ؐ کا مظہر ہوں، یہ بڑے عجیب اور خاص لوگ ہوتے ہیں خدمت مخلوق کی کرتے ہیں اجرت خدا سے ما نگتے ہیں، قدم فرش پر جماتے ہیں خبر عرش کی لاتے ہیں، ٹاٹ کی گدڑی اِن کا لباس اور گھاس پھوس کی جھونپڑی اِن کا محل ہوتا ہے، یہی وہ لوگ تھے جو خاک بسر رہے لیکن تاریخ میں امر ہو گئے، یہ وہ خاک نشیں تھے جو ہمسایہ جبریل امین بن گئے جن کی کٹیا میں چراغ نہیں تھا ان کی قبر سے آج چشمہ نور اُبلتا ہے، جن کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی تھی آج ہزاروں انسان اُن کے آستانوں پر پلتے ہیں، جو لوگ انہیں دھکے دیتے ہیں یہ اُ سے سینے سے لگاتے ہیں، جو انہیں بدعائیں دیتے ہیں یہ ان کی بلائیں لیتیں ہیں، جو انہیں شہر سے نکالتے ہیں یہ انہیں دل میں جگہ دیتے ہیں۔
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
0 comments:
Post a Comment