Monday, November 30, 2015

تذکرہ, چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور

4:08 AM

(حافظ الطاف حسین انجم ڈھلوں)
ایم اے میڈیا سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی
ٹکٹ ہولڈر حلقہ پی پی 270 ( JUI-F )
E.mail: tazkirahnews@gmail.com

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور جو کہ پاکستان کی جنوب مغربی بندرگاہ گوادرسے شروع ہو کر3000 کلومیٹر دور ویسٹرن چائنہ کے شہر کاشغر پر اختتام پذیر ہوگا۔یہ کوریڈورروڈز، ریل ٹریک ، آئل اور گیس پائپ لائن اور آپٹیکل فائبر پر مشتمل ہوگا۔ اس پورے پراجیکٹ پر چائنہ 45.69 بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ کرنے کا پاکستان سے معاہدہ کر چکا ہے۔ اس کوریڈور کا تصور اگرچہ مشرف دور حکومت میں بھی موجود تھا۔لیکن چینی وزیر اعظم Li Keqiang نے اپنے دورہ پاکستان مئی2013 ء کے دوران باقاعدہ پر پیش کیا اور ڈسکشن کا موضو ع بنا۔
اس انوسٹمنٹ پلان کا بریک اپ کچھ اسطرح سے ہے کہ انوسٹمنٹ کا زیادہ تر حصہ انرجی سیکٹر کی تعمیرو ترقی پر خرچ ہوگا۔ مثلاً انرجی سیکٹر پر33.79 بلین ڈالرز ، روڈز موٹروے نیٹ پر 5.90 بلین ڈالر ز، ریلوے نیٹ ورک پر 3.69 بلین ڈالرز، لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پر 1.60 بلین ڈالرز ، گوادر پورٹ پر0.66 بلین ڈالر ز، گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ پر 0.11 بلین ڈالرز اور چائنہ پاکستان آپٹک فائبرپر0.04 بلین ڈالر زخرچ ہوگا۔ اب ہم اسکی دیگر تفصیلات ڈسکس کرتے ہیں۔
CPEC پراجیکٹ کے تحت انرجی سیکٹر میں بہاولپور میں1000 میگا واٹ کا سولر پاور پراجیکٹ ، جس میں سے100 میگا واٹ پہلے ہی تعمیر ہو چُکا ہے۔ سکی کناری ، خیبر پختونخواہ میں 870 میگا واٹ کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ، کیروٹ ، آزاد کشمیر میں720 میگا واٹ کا ہائیڈرو پراجیکٹ ، ٹھٹھہ سند ھ میں 50,50 میگا واٹ کے تین ونڈپاور پراجیکٹ اور 100 میگا واٹ کا اُوچ انرجی پاور پراجیکٹ، پورٹ قاسم پر سندھ میں660 میگا واٹ کے2 عدد کول پاور پراجیکٹ ، جھنپرسندھ، ونڈ پراجیکٹ ، دادو سندھ ونڈ پراجیکٹ ، ہبکو بلوچستان کول فائر پاور پراجیکٹ، گوادر نوابشاہ ایل این جی ٹرمینل اینڈ گیس پائپ لائن کی تعمیر شامل ہے۔جبکہ حویلیاں میں ڈرائی پورٹ کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح Climate Change پراجیکٹ گوادر، چائنہ پاکستان جوائنٹ کاٹن بائیو ٹیک لیبارٹری ، چائنہ پاکستان جوائنٹ میرین ریسرچ سنٹر، پریس، پبلیکیشنز، ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن سیکٹر میں چائنہ انفارمیشن سنٹر اور سی سی ٹی وی کے تعاون سے براڈ کاسٹنگ اینڈ نیشنل ہیریٹیج آف پاکستان پر ورک ہوگا۔ اسی طرح Chengdu سٹی اور لاہورسٹی ، زوہائی سٹی اور گوادر سٹی کو سسٹر سٹی قرار دیا گیاہے۔
اب ہم اکنامک کوریڈور کے تحت روڈز نیٹ ورک اور ریل ٹریک کو ڈسکس کرتے ہیں۔یہ اکنامک کوریڈور پاک چائنہ تعلقات کی بنیادی اور سب سے مضبوط اکائی ہے۔ بلکہ سنٹر پوائنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور چینی وزیر خارجہ کے بقول "The Corridor will serve as a driver for connectivity between south asia and east asia" ۔ اس پراجیکٹ کے تحت انرجی سیکٹر میں10,400 میگا واٹ کی پیداوار کا اضافہ ہوگا۔ جبکہ یہ انوسٹمنٹ پلان پاکستان کی سالانہ GDP کے 20 فیصد کے برابر ہے۔ اگرچہ چینی صدر نے پاکستان کا دورہ اپریل 2015 ء میں کیا ۔ لیکن CPEC پراجیکٹ پر تقریباً پونے دو سال قبل ہی کام شروع کر دیا گیا تھا اور 27 اگست 2013 ء کو ہی اسلام آباد میں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور سیکرٹریٹ کا افتتاح کر دیا گیا تھا۔ عملی کام دھرنا سیاست کی وجہ سے ایک سال لیٹ ہوا۔ ورنہ ستمبر 2014 میں ہی چینی صدر کے شیڈول دورہ پاکستان کے ساتھ ہی کام کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا۔ اس ملٹی پل کوریڈور پلان کے تحت تین روٹس تعمیر ہونگے۔ جن میں مغربی روٹ ، وسطی روٹ اور مشرقی روٹ شامل ہیں۔ مشرقی روٹ جس کی کل لمبائی 2775 کلومیٹر ہوگی وہ گوادر، تربت، پنجگور، ناگ، بسیمہ، قلات، کوئٹہ، قلعہ سیف اﷲ ، ژوب، ڈی آئی خان سے N-55 کے ذریعہ بنوں، پشاور اور وہاں سے M1 سے منسلک ہو کر اسلام آباد ، حویلیاں، تھاہکوٹ ، مانسہرہ ، آزاد کشمیر، گلگت، خنجراباور کاشغر پر مشتمل ہوگا۔ اسی طرح وسطی روٹ جس کا کل فاصلہ 2781 کلو میٹر ہوگا ۔ وہ بھی گوادر پورٹ سے شروع ہو کر تربت، پنجگور، ناگ، بسیمہ، خضدار، رتو ڈیروسندھ ، سکھر ، گھوٹکی ، کشمور، صادق آباد، رحیمیار خان، ظاہر پیر، اُوچ شریف، جلالپور پیروالہ، شجاع آباد ، ملتان ، خانیوال ، جھنگ، گوجرہ، فیصل آباد ، لاہور، اسلام آباد سے براستہ ہزارہ موٹروے، حویلیاں وہاں سے بذریعہ قراقرم ہائی وے ، گلگت، خنجراب اور کاشغر پر مشتمل ہوگا۔ اس وسطی روٹ میں گوادر، رتو ڈیرو موٹروے پر تقریبا 70 فیصد کام مکمل ہو چُکا ہے۔ اسی طرح فیصل آباد ، ملتان سیکشنM4 پر بھی کام جاری ہے۔جبکہ M5, M6 ملتان ، سکھر سیکشن کے لئے زمین کے حصول کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ہم مشرقی روٹ کی بات کرتے ہیں۔ جو کہ گوادر سے بذریعہ مکران کوسٹل ہائی وے کراچی اور کراچی سے بذریعہ موٹروے حیدر آباد اور سکھر پر مشتمل ہوگا۔ سکھر سے آگے یہ روٹ وسطی روٹ پر مشتمل ہوگا۔ اس کوریڈور کے تحت بلوچستان میں3366 کلومیٹر طویل روڈز اور ریل نیٹ وارک تعمیر ہوگا۔ جبکہ خیبر پختونخواہ میں کل 802 کلو میٹر طویل روڈ اور ریل نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے 653 کلو میٹر ، انڈس ہائی وے 1264 کلو میٹر اور قراقرم ہائی وے 1300 کلو میٹر کو بھی اپ گریڈ کیا جائیگا۔فیصل آباد ، گوجرانوالہ، ملتان اور کراچی میں میٹرو بس پراجیکٹ کی تعمیر بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح گوادر میں ہانگ کانگ اور سنگا پور کی طرز پر فری ٹریڈ زون اکنامک سٹی اور سمندر میں19 کلو میٹر طویل شاہرہ ایسٹ بے کی تعمیر بھی منصوبہ میں شامل ہے۔ اسی طرح ایک ہائی وے ملتان ، ڈی جی خان ، رکھنی اور لورالائی کے درمیان زیر تعمیر ہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ اگر اس ہائی وے کو ایکسپریس میں تبدیل کر دیا جائے اور اسے کوئٹہ تک توسیع دی جائے تو نہ صرف کوئٹہ کی تنہائی دور ہوگی ۔ بلکہ کوئٹہ بھی مین سٹریم کا شہر بن کر معاشی اور معاشرتی طور پر بے پناہ ترقی کرے گا اور کوئٹہ ملتان کے درمیان ایک مضبوط تجارتی ، تعلیمی اور سوشل رابطہ قائم ہوگا۔ جس کے بے پناہ مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اسی طرح اس مجوزہ ملٹی پل روڈنیٹ ورک کے ساتھ انڈسٹریل زون بھی قائم کئے جائیں۔ تاکہ اس کوریڈور سے تجارتی فوائد بھی حاصل کئے جائیں۔ اس کوریڈور اور چائنہ ورک فورس کی حفاظت کے لئے پاک آرمی 9 بٹالین پر مشتمل فورس تیار کرے گی۔ جس کی قیادت ایک میجر جنرل کے پاس ہوگی اور یہ فورس 12,000 جوانوں اور افسروں پر مشتمل ہوگی۔
اس طرح یہ روٹ پاکستان کے نہ صرف چاروں صوبو ں سے گزرے گا ۔ بلکہ آزاد کشمیر کو چھوتے ہوئے گلگت ، بلتستان میں اختتام پذیر ہوکر کاشغر کو لنک کرے گا۔ ہمارہ مشورہ ہے اور جیسا کہ اس منصوبہ کی توسیع کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے۔ اس روٹ کو اگر شمال مشرق میں توسیع دے کر اور ضلع چترال سے گزار کربراستہ واخان کو ریڈور ایک سرنگ بنا کر تاجکستان سے لنک کر دیا جائے۔ تو یہ روٹ نہ صرف CASPIAN SEA ، سنٹرل ایشیاء ، رشین فیڈریشن اور ترکی کو بھی بلکہ مشرقی یورپ کو بھی گوادر تک رسائی مہیا کر سکتا ہے۔
اس روٹ کے استعمال سے قبل چائنہ ، مڈل ایسٹ ریجن اور ایران سے اپنی آئل امپورٹ و دیگر برآمدات و درآمدات کے لئے Strait of Malaca کا روٹ استعمال کرتا ہے۔ جوکہ انتہائی طویل اور پر خط راستہ ہے۔ گوادر کاشغر روٹ کے استعمال سے چائنہ کی آپریشنل کاسٹ ایک تہائی کم ، جبکہ یو اے ای سے سنٹرل چائنہ تک کا فاصلہ 16,000 کلو میٹر کی بجائے صرف5800 کلو میٹر اور ویسٹ چائنہ تک صرف 3600 کلو میٹر رہ جائیگا ۔ اگر چائنہ صرف اپنی آئل امپورٹ کا 50 فیصد اس کوریڈور کو استعمال کرتے ہوئے منگوائے تو اُسے روزانہ6 ملین ڈالر اور سالانہ 2 بلین ڈالر کی بچت متوقع ہے۔ چائنہ اور پاکستان کے درمیان اس وقت صرف 16 بلین ڈالر کی سالانہ تجارت ہے۔ جس میں 12.57 فیصد سالانہ اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس ٹریڈ روٹ کے استعمال سے اس میں نہ صرف 100 گنا اضافہ ممکن ہے۔ بلکہ ٹریڈروٹ کے مکمل طور پر آپریشنل ہونیکے بعد گوادر پورٹ پر پوری دنیا کی 30 فیصد بحری تجارت کی بھی توقع ہے۔
اس طرح یہ ٹریڈ روٹ اور گوادر رپورٹ پاکستان کے خزانہ کو سالانہ کم از کم 10 تا15 بلین ڈالر کی سپورٹ کرنے کے قابل ہونگے۔ اور اندرون ملک تجارتی حجم میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ گوادر پورٹ اور CPEC ملٹی پل ٹریڈ روٹ پاکستان کے لئے عطیہ خداوندی اور نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ خدارا اسے ہر گز ہرگز منفی سیاست کی نذر نہ کیجیئے گا

 

Written by

We are Creative Blogger Theme Wavers which provides user friendly, effective and easy to use themes. Each support has free and providing HD support screen casting.

0 comments:

Post a Comment

 

© 2016 TIPS AND Tricks. All rights resevered. Designed by Templateism

Back To Top