Monday, November 30, 2015

تذکرہ, گوادر پورٹ

4:01 AM

(حافظ الطاف حسین انجم ڈھلوں)

ایم اے میڈیا سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی

ٹکٹ ہولڈر حلقہ پی پی 270 ( JUI-F )


Click Here and Contact With Email
لفظ گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ (Wind) Gwat اور DAR (Gateway) سے ماخوذ ہے۔ اس طرح گوادر کا مطلب Gateway of Wind بنا ایک اور تھیوری کے مطابق گوادر پرانے بلوچی نامGardoria سے ماخوذ ہے۔ جس کا مطلب بارانی صحرا ئی علاقہ ہے۔ یہ نام یونانیوں نے بلوچستان کر دیا ۔ جب الیگزینڈر دی گریٹ کی افواج یہاں سے گزری تھیں۔ اب یہ یہی " گیٹ واے آف ونڈ" نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کے لئے معیشت کا گیٹ وے بننے جا رہا ہے۔گوادر تزویراتی طور پر گلف آف اومان اور رشین گلف کے دہانے اور بحیرہ عرب کے Apex پر واقع گہرے اور گرم پانیوں کی ایک تہائی اہم بندرگاہ ہے۔ یہ کراچی سے 700 کلو میٹر جبکہ ایرانی بارڈر سے صرف 200 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ گوادر رپورٹ قدرتی طور پر 47 فٹ تک انتہائی گہری ہے اور مدرشپس کو با آسانی ہینڈ ل کیا جا سکتا ہے جو کہ کراچی بندرگا ہ کی گودی پر نہیں لگ سکتے ۔ یہ شہر آئل ، گیس اور ٹرانزٹ کارگو میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔
گوادر کی آبادی بھی بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح انتہائی قدیم دور سے ہے۔ جسے تاریخ میں Branz Age کہا جاتا ہے۔ پہلے پہل بلوچستان کو مکران کہا جاتا تھا اور یہ کبھی قدیم فارس کا حصہ تھا۔ جس کے بانی سائرس اعظم تھے۔ الیگذینڈر دی گریٹ کی افواج نے جب برصغیر سے واپسی کا رخ اختیار کیا تو اُس کے امیرالبحر " یزچیس" کی قیادت میں ایک فلیٹ ساحل مکران سے گزرا تھا اور انہوں نے ہی یہ نوٹ کیا کہ یہ خشک پہاڑی علاقہ اور مچھیروں کی چھوٹی سی بستی ہے۔یہ 303 ء قبل مسیح کا دور تھا کہ یونانی بادشاہ الیگزینڈر دی گریٹ کی سلطنت کے انہدام کے بعد یہ علاقہ اُسی کے ایک جنرل "Seleucus nicate" کے زیر انتظام بھی رہا ۔ اُس وقت تک اس علاقہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ حضرت حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں عرب مسلم آرمی نے 643 ء میں مکران فتح کر لیا۔ اس سے پہلے یہ علاقہ مختلف قوتوں نے فتح کیا اور اُن کے زیر کنٹرول بھی رہا۔ عرب مسلم آرمی کی آمد سے تقریبا دو صدیاں قبل تک یہ علاقہ مقامی بلوچ قبائل کے زیر حکومت رہا۔ 1550 ء میں یہ شہر خلافت عثمانیہ کے امیر بحر سعیدی علی رئیس نے بھی وزٹ کیا اور انہوں نے اس کا ذکر اپنی کتاب " میراۃ الممالک " ( The Mirrs of Countries) میں بھی کیا ہے۔ سعیدی علی رئیس کے مطابق گوادر کے باشندے بلوچ تھے۔ اور اُن کا سردار ملک دینا ر کا بیٹا ملک جلال الدین تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں پرتگیزیوں نے اومان اور انڈیا کا بہت سا علاقہ فتح کر لیا اور انہوں نے مکران کے ساحلی علاقہ جات کو بھی ساتھ شامل کر نے کی منصوبہ بندی کی ۔ پر تگیزی مہم جو واسکوڈے گاما کی زیر قیادت گوادر پر حملہ کیا گیا ۔ لیکن کمانڈر اسماعیل بلوچ کی افواج نے اُن کو شکست دی ۔ کئی دفعہ پرتگیزیوں نے ساحلی شہروں کو لوٹا اور آگ لگائی ۔ لیکن گوادر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ پرتگیزی افواج کی پرانی توپیں گوادر کی سنٹرل جیل کے پاس ملی ہیں اور سردار اسماعیل بلوچ کی قبر پر بھی گوادر کے ہٹل پہاڑ کے قریب ملی ہے۔ جسے میرا سماعیل بلوچ نے اپنی زندگی میں خود ہی تعمیر کروایا تھا۔ جبکہ وہ 1873 ء میں فوت ہوئے۔
میرا اسماعیل بلوچ نے گچکی بلوچ قبائل کو شکست دے کر قلات سمیت گوادر اور اُ کے آس پاس کا تمام علاقہ فتح کر لیا تھا۔ لیکن چونکہ عملی طور پر اس وسیع وعریض صحرائی علاقے کا کنٹرول مشکل تھا۔ اس لئے گچکی سردار سے معاہدہ کر کے اور اپنی اتھارٹی تسلیم کرواکر گوادر کا کنٹرول اُن کو واپسی کر دیا ۔ معاہد ہ میں یہ طے پایا کہ گچکی سردار ریونیو کلیکشن میں 50 فیصد حصہ خان آف قلات کو پہنچائے گا۔ اسطرح یہ انتظام 1873 ء تک چلتا رہا۔ حتی کیہ خان آف قلات میر نوری نصیر خان بلوچ نے گوادر اومان کے تخت سے محروم حکمران تیمور سلطان کو1873 ء میں گفٹ کر دیا ۔ جب تیمور سلطان نے اومان کا تخت دوبارہ حاصل کر لیا تو اُ نے گوادر میں اپنا گورنر مقرر کر دیا تو اومانی گورنر نے قریبی ساحلی علاقہ چاہ بہار کو بھی اپنے زیر اثر لانے کی کوششیں کی ۔ قلعہ گوادر اومانی دور حکومت کے دوران تعمیر ہوا۔ جبکہ گوادر تک ٹیلیگراف لائن انگریزوں نے بچھائی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت آف اومان کا حصہ تھا اور آج بھی بہت سے گوادری اومان کی مسلح افواج اور پولیس میں ملازم ہیں اور اومان و پاکستان کی دہری شہریت رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ آف پاکستان نے کمال دانشمندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس مستقبل کے گیٹ آف ٹریڈ گوادر انکلیوں کی اومان کے ساتھ 8 ستمبر 1958 میں ڈیل کی اور باقاعدہ 5.5 ملین ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے بعد 8 دسمبر 1958 کو گوادر کو پاکستان کا حصہ بنا لیا۔ گوادر کی خریداری کے سلسلہ میں رقم کا زیادہ تر حصہ شہزادہ علی سلطان محمد شاہ اور سر آغا خان نے عطیہ کیا۔ جبکہ بقیہ رقم ٹیکس لگا کر اکٹھی کی گئی۔ اس وقت کی بھارتی حکومت نے بھی پاکستان کو گوادر سے محروم کرنے کے لئے گوادر کی بڑھ چڑھ کر بولی لگائی اور بہت زیادہ سرگرمی دکھائی لیکن حکومت پاکستان نے کمال دانشمندی سے تمام معاملات طے کئے اور اومانی سلطنت نے بھی اس پاکستانی مؤقف کی تائید کی کہ گوادر تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے پاکستانی بلوچستان کا ہی حصہ ہے۔ اور پاکستان کا اس پر حق فائق ہے ۔ بھارت کسی بھی طرح اس کے حصول میں حق بجانب نہیں ہے۔ یکم جولائی 1977 ء میں اس علاقہ کو ایک مکمل سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ گوادر کی موجودہ آبادی تقریباً 85000 نفوس پر مشتمل ہے۔ جوکہ شاید آئندہ چند سال تک ایک ملین کو بھی کراس کر جائیگی ۔
مختلف ادوار میں گوادر پورٹ کی تعمیر شروع کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بین الاقوامی قوتوں کے پریشر پر یہ منصوبہ التواء کا شکار ہوتا رہا۔ میاں محمد نواز شریف کے دوسرے مختصر دور حکومت 1996 ء سے1998 ء تک گوادر پورٹ کو چائنہ کے تعاون سے ڈویلپ کرنے کا منصوبہ بنا اور گیارہ موٹروے سیکشن اس منصوبہ کا حصہ تھے۔ جن کے ساتھ ہر 300 کلومیٹر کے بعد نئے صنعتی شہر بسائے جانے تھے۔ لیکن بین الاقوامی طاقتوں کی سازش اور ناعاقبت اندیش ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے گریٹ گیم کا یہ سارا پلان چوپٹ کر دیا اورملک کو پرائی لڑائی میں جھونک دیا ۔ جس سے پاکستان کا پورا وجود لہو لہان اور معیشت ڈگر گوں حال کو جا پہنچی۔ اگرچہ مشرف دور حکومت میں ہی گوادر کی تعمیر کا غلغلہ بڑے زور شور سے بلند ہوا۔ لیکن غلط پالیسوں کے باعث بار آور ثابت نہ ہو سکا۔
گوادر پورٹ کی ڈویلپمنٹ کا سٹ 248 ملین ڈالر ہے۔ جو کہ پاکستان اور چائنہ نے مشترکہ طور پر برداشت کی ہے۔ 20 مارچ 2007 ء کو گوادر پورٹ کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ گوادر کا ماسٹر پلان2003 ء میں حکومت پاکستان نے منظور کیا ۔ جس کے تحت گوادر 30 کلومیٹر چوڑائی اور 90 کلو میٹر لمبائی کا 270 مربع فٹ کلومیٹر پر محیط شہر اور فری پورٹ ہوگی۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی اُسی دور میں 2003 میں ہی قائم کی گئی ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 2011 ء میں گوادر کو صوبے کا سرمائی دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا 2013 ء میں مرکز میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت بننے کے بعد 5 جولائی 2013 کو گوادر کے سلسلہ میں ہی روایت سے ہٹ کر پہلا سرکاری دورہ سعودیہ کی بجائے چائنہ کا کیا گیا تاکہ گوادر پر دوبارہ انتظام چائنہ کو دیے دیا گیا۔ اس سے قبل مشرف دور حکومت میں ایک دس سالہ معاہدہ کے تحت گوادر پورٹ کا انتظام سنگا پور ٹ اتھارٹی کو دیا گیا۔ جو اسے فنکشنل نہ کر سکی۔ سنگا پور اتھارٹی کو گوادر پور ٹ کا انتظام سونپنا سراسر پاکستان کے ساتھ زیادتی اور چائنہ کے ساتھ بھی نا انصافی تھی۔ کیونکہ گوادر کی ڈویلپمنت کا زیادہ تر خرچہ تو چائنہ نے برداشت کیا تھا اور دوسری بات یہ کہ چائنہ انٹر نیشنل پریشر بھی برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جبکہ سنگا پور جیسا انتہائی چھوٹا جزیرہ اور کمزور ملک قطعی طور پر یہ سب کچھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اور یہ ہی چیز گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے میں رکاوٹ بنی۔
اور اب چائنہ CPEC معاہدہ کے تحت پاکستان میں 46 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ بھی کرنے جا رہا ہے۔ جسے روکنے کے لئے بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹ آئی۔ اور ملکی معیشیت کا پہیہ جام ہوا۔ اب چائنہ گوادر پورٹ کو فل سکیل کمرشل پورٹ کے طور پر ڈویلپ اور فنکشنل کرنے کے لئے مزید 750 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ کرے گا۔ یہ پورٹ پاکستان اور چائنہ دونوں ممالک کے لئے سٹریٹجک لحاظ سے بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ چائنہ کی تمام برآمدات و درآمدات کا انحصار اس وقت Strait of Malaka کی انتہائی غیر محفوظ گزرگاہ سے ہے۔ جو کہ اس بندرگارہ اور گوادر کاشغر ریٹ کے استعمال سے نہ صرف محفوظ ہو جائیگی ۔ بلکہ 16000 کلو میٹر سے سمٹ کر فاصلہ بھی صرف 3000 ہزار کلو میٹر رہ جائیگا۔
چائنہ کا زیادہ تر آئل پریشین گلف سے شنگھائی پورٹ پر آتا ہے۔ جس پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اور کارگو میں بھی 2 سے 3 ماہ کا وقت لگتا ہے۔ راستے میں بحری قزاق ، خراب موسم ، سیاسی دشمنی اور کئی دیگر خطرات ہیں۔ جو نہ صرف ختم ہو جائینگے۔ بلکہ آپریشنل کا سٹ بھی 75 فیصد تک کم ہو جائیگی۔ اور پھر گوادر گرم پانیوں کی بندرگاہ ہونیکی وجہ سے سارا سال آپریشنل بھی رہیگی۔ فروری 2013 ء میں ہی ایران نے4.000 ملین ڈالر کی انوسٹمنٹ سے گوادر میں ایک آئل ریفائنری قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کی ریفائننگ گنجائش 4.00 لاکھ بیرل روزانہ ہوگی۔ اسی پلان کے تحت ایران اپنی سرزمین سے گوادر پورٹ تک کروڑ آئل کی ایک پائپ لائن بھی بچھائے گا۔ خود چائنہ بھی گوادر میں کروڑ آئل کی ایک ریفائنری قائم کرے گا۔ جس کی گنجائش 60.00 ہزار بیرل روزانہ ہوگی۔ رشین گورنمنٹ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں2.00 بلین ڈالر کی انوسٹمنت کرے گا اور اگر جیسا کہ ہم نے اپنے پچھلے کالم" واخان کوریڈور" کی اہمیت کے پیش نظر اس میں حکومت پاکستان پر زور دیا تھا۔ پاکستان واکان کوریڈور بھی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان نہ صرف باآسانی ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے۔ بلکہ پورے ایشیا میں ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہب بھی بن جائیگا۔ اگر صرف اکیلا چائنہ گوادر پورٹ اور CPEC کے استعمال پر پاکستان کو سالانہ کم از کم 500 ملین ڈالر کا فائدہ دے سکتا ہے تو رشین فیڈریشن ، سنٹرل ایشیاء ، ترکی ، ایران ، افغانستان اور بھارت کتنا فائدہ دے سکتے ہیں۔ گوادر پورٹ کے فنکشنل ہونے پر پاکستان بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے انتہائی پر کشش ملک بن جائیگا۔ کوریا ، جاپان ، سنگا پور ، عرب امارات ، ملائیشیا ء اور انڈونیشیا بالخصوص جبکہ یورپ اور امریکہ بھی پاکستان میں انوسٹمنٹ کرنے کے لئے پر تولنے لگیں گے۔
پاکستان کو چاہئے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کو ڈویلپ کرنے اور صحیح استعمال میں لانے کے لئے وہاں پر زیتون کی کاشت کا تجربہ کرے اور ایران کے بارڈر پر200 کلو میٹر لمبی موٹروے یا کم از کم ایکسپریس وے اور ریلوے لائن تعمیر کرے ۔ اسطرح پاک ایران اور پاک ترک تجارت میں کم از کم 100 گنا اضافہ ہو جائیگا۔ 

 

Written by

We are Creative Blogger Theme Wavers which provides user friendly, effective and easy to use themes. Each support has free and providing HD support screen casting.

0 comments:

Post a Comment

 

© 2016 TIPS AND Tricks. All rights resevered. Designed by Templateism

Back To Top