پاکستان سے بہاولپور کا الحاق امیر بہاولپور کے جذبہ حُب الوطنی اور اسلام دوستی کا مر ہون منت ہے
*۰۰۰ ڈاکٹر سید شاہد رضوی
آزادی سے پہلے بہاول پور میں قانونی طورپر نہ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت تھی اور نہ سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آسکتا تھا تاہم لوگوں نے اپنے اپنے سیاسی معتقدات ورحجانات کے مطابق یہاں کچھ تنظیمیں قائم کی ہوئی تھیں جنہیں وہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتی تھیں ۔بظاہر یہ جماعتیں مذہبی اوررفاہی قسم کی تھیں جیسے انجمن اشاعت سیرت النبی اور حزب اللہ لیکن بہ باطن ان کا مقصد یہی تھا ۔جو بیرون ریاست مسلم لیگ اور نیشنل کانگریس کا چناچہ جو لوگ ان جماعتوں سے منسلک تھے وہ بالواسطہ مسلم لیگ یا کانگریس کے حامی تھے مسلم لیگی نظریہ کے حامل لوگوں کے مقابلے میں کانگریسی خیال کے لوگ یہاں زیادہ منظم تھے انہیں وسائل و ذرائع بھی نسبتاً زیادہ میسر تھے یہاں کی ہندو آبادی جو یہاں کی معیشت پر چھائی ہوئی تھی ان کی پشت پناہ اور معین و مددگار تھی ۔اس کے علاوہ نیشنلٹ علماء کا بھی یہاں کافی اثرتھا یہاں کے مذہبی جلسوں میں جن کا اہتمام حزب اللہ کے ہاتھ میں ہوتا تھا یہ علما بڑی کثرت سے آتے تھے سید عطا ء اللہ شاہ بخاری اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے تو گویا بہاول پور کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا ۔
اس کے برعکس مسلم لیگی خیالات کے علمبر دار بالکل بے ذربے پر تھے ۔ انہیں نہ اندرون ریاست کسی سرمایہ دار کی سرپرستی حاصل تھی اور نہ بیرون ریاست مسلم لیگ کے لیڈروں سے کوئی زیادہ ربط وضبط تھا ۔ یہ کبھی کبھار میلاد کی محفلیں منعقد کر لیتے تھے لیکن ان میں بھی کسی جید اور مشہور عالم کو یہ کبھی باہر سے نہ بلوا سکے ۔، فی الحقیقت انجمن اشاعت سیرت النبیؐ سیاسی قلندروں کی ایک ایسی جماعت تھی جو محض اپنے جوش عمل اور جذبہ اخلاص سے ایک با اثر اور طاقتورحریف کو زیر کرنا چاہتی تھی ۔
1939-40ء میں جب پاکستان کی تحریک بڑے زوروں پر تھی اور یہ خیال تھا کہ اس کے اثرات بہاولپور میں بھی پہنچیں گے ۔ حزب اللہ نے بہاولپور میں حکومت خود اختیاری کا نعرہ بلند کر دیا اور کمال دانائی سے انجمن اشاعت سیر ت النبی کے ارکان کو بھی اس مسئلہ میں لجھا دیا اور صرف اس پر بس نہیں کہ بلکہ کچھ ایسا ڈول ڈالا کہ حزب اللہ اور انجمن اشاعت سیرت النبیؐ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ۔ دونوں کے اشتراک سے ایک نئی جماعت قائم ہوئی جس کانام جمعیت المسلمین رکھا گیا۔ اس جماعت کا بظاہر مقصد ریاستی عوام کے لئے ذمہ دارانہ نظام حکومت کا حصول تھا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو جماعت اب تک تحریک پاکستان کو جمیع مسلمانان ہند کی تمام خرابیوں کا حل سمجھتی تھی اوہ بھی اپنے مقصد سے ہٹ کہ ذمہ دارانہ نظام حکومت کے نعرے کے ساتھ بہہ گئی ۔
حزب اللہ کے ارکان کو جب یہ اطمینان ہوگیا کہ انجمن اشاعت سیرت النبیؐ بہاولپور کی اندرونی سیاست میں الجھ گئی ہے اور اب وہ انکی راہ میں مزاحم نہیں ہوگی انہوں نے چپکے چپکے یہاں باقاعدہ مجلس احرار کے قیام کو ششیں شروع کر دیں اور بیرون ریاست کے کانگریسی اور احراری لیڈروں سے مل کر ریاست میں سیاسی تحریک چلانے کا پروگرام بنایا ۔ انجمن اشاعت سیر النبیؐ ؐکے علاوہ جمعیت المسلمین میں خود کو ختم کرکے عملی طورپر حزب اللہ کے زیر اثر آگئے تھے بہاولپور میں مجلس احرار کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھ کر بڑے متفکر ہوئے اور ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی تدبیر کرنے لگے ۔ اسی اثناء میں (1940ء)میں مسلم لیگ نے قرار داد منظور کر لی ۔ جو انجمن اشاعت سیرت النبیؐ کے ارکان کو اور زیادہ متحرک کرنے کا موجب ہوئی اورا نہوں نے بالاآخر جمعیت المسلمین سے علیحدگی اختیار کرکے مسلم بورڈ کے نام سے ایک علیحدہ جماعت بنائی جس کے صدر پیر زادہ محمد سلیم اسلم تھے ۔ آگے چل کر مسلم بورڈ اور جمعیت المسلمین میں تو اتحاد ہوگیالیکن خدا م وطن جس کا حقیقی گٹھ جوڑمجلس احرار اور جمعیت علمائے ہند سے تھا بد ستور تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی مخالفت کرتی رہی۔
جوں جوں پاکستان کی منزل قریب آرہی تھی اس مخالفت میں اضافہ ہورہا تھا۔چنانچہ عین اس وقت جب پاکستان معرض وجود میں آرہاتھا اور بہاولپور کی آئندہ حیثیت کا تعین ہوناتھا خدا م وطن کے صدر نے پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کی مخالفت میں یہ بیان دیا ۔
’’ریاست کو اس ڈومینین میں شامل ہونا چاہیے جو ریاستی عوام کی خوشحالی کی ضامن ہوا ور جس کے ذریعے کھانڈ،کپڑا اور نہری پانی فراوانی سے مل سکے۔ خواہ وہ ڈومینین پاکستان ہو یا ہندوستان ‘‘
اس بیان کا بہاولپور کے لیگی حلقوں میں شدید ردعمل ہوا مسلم بورڈ نے اس کے خلاف جلسے منعقد کرکے گانگریس کے پٹھوؤں کو بے نقاب کیااور رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں ہموار کیا ۔ امیر بہاولپور نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی ان دنوں لندن میں مقیم تھے لیکن ان کے ولی عہد بریگیڈیر محمد عباس عباسی بہاولپور میں موجود تھے اور بہاولپور کے عوام کے جذبات سے نواب صاحب کو باخبر رکھے ہوئے تھے وہ خود بھی نظریہ پاکستان کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ ہزہائی نس پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کی جلد از جلد منظوری دیدیں۔
ہزہائی نس کے متعلق بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کا جھکاؤ ہند وستان کی طرف ہے۔ چونکہ پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کا فوری اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے لوگوں کے ان شکوک کو تقویت پہنچ رہی تھی ۔ ادھر کانگریس اور احراری حلقوں کا پراپیگنڈہ بھی بہت زبردست تھا جسکی وجہ سے لوگ ہیجان میں مبتلا تھے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پاکستان سے بہاولپور کے الحاق کے اعلان میں ہزہائی نس کو کوئی تامل نہ تھا بلکہ انکی سرکاری مشینری اس سلسلے میں کچھ ضروری امور طے کرنے میں مصروف تھی جس کی وجہ سے یہ تاخیر ہوگئی ۔ جہاں تک ہزہائی نس کے ذاتی جذبات کا تعلق تھا وہ شروع سے مسلمانوں کا مستقبل مسلم لیگ کی تحریک سے وابستہ سمجھتے تھے ۔ خدا نے انہیں تدبرو فراست کی بے پایاں دولت سے نواز ا تھا۔ ان کے د ل میں قوم کا درد تھا وہ برصغیر کی سیاست سے بظاہر بے تعلق رہنے کے باجود مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے ۔ انکی سیاسی بصیرت اور اسلام دوستی اس واقعہ سے آشکار ا ہے کہ قیام پاکستان سے کافی دن پہلے جب ان سے کسی نے یہ سوال کیا کہ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد آپ کس ڈومینین سے الحاق کرنا پسند کریں گے ۔ تو انہوں نے بلا جھجک یہ جواب دیا کہ پاکستان کا دورازہ میرے سامنے کھلتا ہے اور ہندوستان کا دروازہ میرے پیچھے ۔لہذا کوئی شریف آدمی سامنے والے دروازے کو چھوڑ کر پچھلے دروازے سے جانا کبھی پسند نہیں کر سکتا بہر حال نواب سر صادق محمد خان نے بغیر کسی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے پاکستان سے ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا اس طرح تین سو میل لمبے بارڈ پر مشتمل ریاست جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کا دل ہے ، پاکستان میں باقاعدہ شامل ہوگئی
0 comments:
Post a Comment